شور ہے غضب کا مگر تنہائی نہیں جاتی۔۔۔ اردو غزل ، فاروق شہزاد ملکانی
شور ہے غضب کا مگر تنہائی نہیں جاتی
وہ سامنے ہے اور مجھ سے
کوئی بات بنائی نہیں جاتی
دے کے درد اس نے درد کو بھی تنہا کر ڈالا
خوشی ملے یا درد،
روح فرسائی نہیں جاتی
سب کچھ کر کے دیکھ
لو میں یہاں ہی ہوں
میرے رقیب سے تو میری
تصویر بھی ہٹائی نہیں جاتی
اس نے چھوڑا تھا مجھے میں نے
تو فقط بھلایا ہے
مگر اس ظالم کی کوئی
بات بھی بھلائی نہیں جاتی
بے وفا تو ہے، اے ستمگر تو ہی ہرجائی ہے
میں لاکھ صفائیاں
دوں مگر رسوائی
نہیں جاتی
دل کے نہاں خانوں میں
وہ موجود ہے پھولوں کی طرح
میرے خیالوں سے بھی اس کی انگڑائی نہیں جاتی
شہزاد میں کیسے رہ
پاؤں
گا اس کے بغیر
ایسی قاتل مزاج صورت
تو کبھی بھلائی نہیں جاتی
شاعر: فاروق شہزاد ملکانی
یہ بھی پڑھیں:
مرشد دعا کیجئے۔۔۔ فاروق شہزاد ملکانی - Urdu
Poetry
وہسچ کہتا ہے مگر اس کی کوئی نہیں سنتا۔ اردو شاعری : فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے