انشاء پردازی کا فن اور اس کے اصول

انشاء پردازی کا فن اور اس کے اصول

 

انشاء پردازی کا فن اور اس کے اصول

تبسم آراء

ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی

فون نمبر9014782069

 

انشاء پردازی ایک ایسی دلچسپ اور خاموش تفریح اور محبوب مشغلہ ہے جو دوسرے مشغلوں سے بہتر ہے۔ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں ہونے والی مصروفیت سے اکتاجاتا ہے۔ توایسے مضمحل قلب کو تحریر انشاء پردازی ذہنی سکون کا باعث ہوسکتی ہے۔

 

انشاء کا مادہ نش ء ہے جس کے لغوی معنی پیدا کرنا ہے۔ انشاء پردازی کا مطلب ”دل سے بات پیدا کرنا“۔ عبارت لکھنا۔ طرز تحریر۔لکھنے کی مہارت۔ انشاء کرنا۔ تعلیم یافتہ طبقہ کی زبان۔ (بحوالہ:فیروز اللغات)

قرآن مجید میں اس لفظ کے معنی ہے پیدا کرنا جو کئی جگہ وارد ہوا ہے۔ سورۃ الملک میں ارشاد باری تعالی ہے ”کہو کہ وہی جس نے تم کو پیدا کیا“۔ (اللہ رب العالمین)

 

عبد الماجد دریابادی کے نزدیک ”انشائیوں کی امتیازی خصوصیت حسن انشاء ہے“۔ یہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ انشاء میں مغز ومضمون کی اصل توجہ حسن عبارت پر ہے۔ گویا معیاری اور ادبی زبان کا تصور انشاء پردازی کے ساتھ ابتداء سے ہی رہا ہے اس اعتبار سے ہمارے مایہ ناز (ادباء) جنہوں نے ابتداء میں نثر نگاری کے ذریعہ اسلوب کے عمدہ نمونے فراہم کئے ہیں۔ اور ان کی کاوشیں ادب کازرّیں باب ہیں۔

غر ق گرداب ہم فکر ہو انشاء پرداز

اے نصیرؔ اپنے دکھاؤں جوہر تقریر پیچ

(نصیر)

آج بھی ادباء بہترین انشاء پردازوں کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔بحوالہ(کتاب: ”یہ ہے انشائیہ شنا سی“ مصنف محمد اسد اللہ خان)

 

فن انشاء پردازی:

            اردو انشاء پردازی نے کم عمری میں غیر معمولی ترقی کی منازلیں طے کی ہیں۔ فن انشاء پردازی صرف نظری علم کا نام نہیں بلکہ حصول علم کے ساتھ لکھنے کی مشق سے ہوتا ہے۔ (بقول شاعر)

نامہئ جاناں ہے کیا لکھا میری تقدیر کا

خط کی انشاء اور ہے لکھنے کا املاء اور ہے

            کامیاب انشاء پرداز خیالات کو ہمیشہ دلکش انداز میں پیش کرتا ہے۔ یوں تو ہر تحریر قاری کے لئے لکھی جاتی ہے۔ قاری کے مزاج کو سامنے رکھ کر انشاء پردازی کی فنکارانہ صلاحیت کو بہ روئے کار لانا پڑتا ہے۔ سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں غور وفکر میں گم رہتا تھا۔ اور جب بات کی تہہ تک پہنچ جاتا تو لکھنا شروع کرتا اور پھر حقیقت میں اس کے تخیل کا دریا بہہ نکلتا ہے اس طرح انشاء پردازی کا علمی تجربہ اور الفاظ پر اس کی گرفت ہوجاتی ہے۔

 

            انشاء پردازی یا مضمون نگاری علم وادب کا ایک غیر معمولی جز اور خاص فن ہے اور اس فن کے ذریعہ سے علمی‘ ادبی‘ تمدنی‘ معاشرتی‘ مذہبی‘ تاریخی اور ہر قسم کے معلومات دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اگر انسان کو لکھنے کا اچھا سلیقہ ہو تو وہ اپنے خیالات او جذبات کو موثر انداز میں پیش کرسکتا ہے۔ جس سے پڑھنے والے متاثر ہوجاتے ہیں اور یہی انشاء پردازی کی کامیابی کا ثبوت ہے۔

خون روتا ہوں میں اک حرف خط پر ہمدمو

اور اب رنگین جیسا تم کہو انشاء کروں

 

انشاء پردازی کے اصول:

            ۱۔سب سے پہلے مضمون نگار کا مطالعہ وسیع ہونا چاہئے اور وہ ماہر قلم کاروں کی تحریروں کا مطالعہ کرتے رہیے اس سے مضمون نگار کی معلومات میں اضافہ ہوگا اور وہ معلومات کی روشنی میں نئی بات اور خیالات اجاگر کرسکے گا۔

            ۲۔ہر مضمون نگار کو ملک کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی حالات سے واقفیت حاصل کرنا چاہئے۔ تاکہ حالات کے پیش بہتر مضمون لکھ سکے۔

            ۳۔مضمون سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ موضوع دلچسپ عام فہم اور آسان ہو۔

            ۴۔ مضمون میں اختصار کا خاص خیال رکھیں۔ طویل مضامین غیر دلچسپ ہوتے ہیں۔مختصر مفید Short and sweet ہو تو مضمون کوقاری پڑھنے میں پہل کرتا ہے۔

            ۵۔ ایسا مضمون دلچسپ نہیں ہوسکتا جس میں علمی وفنی معلومات خشک طریقہ سے پیش کی گئی ہو۔اس کا  ہے کہ مطلب دلچسپ اور خوشگوار انداز میں پیش کیا جائے۔

            ۶۔روز مرہ کے زندگی میں بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کو خوش اسلوبی کے ساتھ مضمون کی شکل دینا قاری کے لئے مفید ہوتا ہے اور لوگ اپنے تجربات میں اضافہ کرنے کے لئے ایسی تحریر کو پسند کرتے ہیں۔

 

      اسلوب بیاں:

            ۱۔مضمون کا آغاز پر کشش انداز میں پیش کیا جائے تو قاری مضمون پڑھنے کے قائل ہوجاتا ہے۔

            ۲۔مضمون نگار کا اسلوب بیان‘ دلکش سادہ اور دلچسپ ہونا چاہئے۔ مضمون کی خوبی اور خامی کا انحصار اسلوب بیان پر ہی ہوتا ہے۔

            ۳۔ انسان کے ذہن میں اکثر خیالات آتے رہتے ہیں۔ اچھے خیالات کو فوراً قلمبند کرلینے سے مضمون کی تحریرکے دوران ان خیالات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

            ۴۔مضمون کے الفاظ چھوٹے اور آسان عام فہم سادہ زبان میں لکھنا بہتر ہے۔ جس سے اس کا مطلب آسانی سے ظاہر ہوجائے۔

            ۵۔ مضمون میں خیالات کا ربط قائم رہنا چاہئے۔ ایک بات کو مکمل کئے بغیر دوسرے بات کا بیان کرنا مضمون کو بے ربط بنا دیتا ہے۔

            ۶۔مضمون نگار دوسرے ادیبوں کی تحریروں کو پڑھ کر اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کرے۔ اس طرح الفاظ کے ذخیرہ میں بھی اضافہ ہوگا۔

            ۷۔ اردو زبان کے لکھنے والوں میں قابل تقلید ادیب ہیں۔ مولانا شبلی‘ حالی‘ ڈاکٹر ڈپٹی نظیر احمد‘ سر سید احمد خان وغیرہ قابل ذکر ہیں (بحوالہ کتاب: اردو انشاء پردازی)۔ اس کے لکھنے والے مولوی سیدامیر حسن نورانی ہے۔

 

 اقتباس:

            ۱۔یوروپ کے مشہور انشاء پرداز کا قول ہے کہ ”قابل توجہ یہ بات ہوتی ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہم اس کو کس طرح ادا کر رہے ہیں“۔

            ۲۔ مشہور عرب کا مورخ وانشاء پرداز ابن خلدون نے کہا کہ ”الفاظ پیالہ ہے اور معانی پانی۔ اب اگر پانی کو مٹی کے پیالہ میں رکھا جائے گا تو اس کی وہ قدروقیمت نہ ہوسکے گی۔ جو سونے کے پیالہ میں رکھنے سے ہوتی ہے“۔

            مولانا حالی لکھتے ہیں انشاء پرداز ی کا دارو مدار جتنا الفاظ پر ہے اتنا معانی پر نہیں کیوں کہ معانی ومطالب الفاظ کے تابع ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معانی کو بہترین الفاظ میں ادا کریں الفاظ میں مطابقت قائم رہیں۔

            ماہر انشاء پردازوں کے ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کی ظاہری خوشنمائی ضروری ہے۔

 

انشاء پردازی کی بنیاد کتابوں کے مطالعہ پر ہے۔ مطالعہ جتنا وسیع ہوگا اتنا ہی وہ اچھا انشاء پرداز ہوگا۔ اردو انشاء پردازی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے علوم وفنون سے واقف ماہر انشاء پردازوں کی تحریروں کا مطالعہ کریں۔ جیسے کہ ابو الکلام آزاد‘ عبدالماجد دریا بادی‘ ڈاکٹر عبد الحق‘ نیاز فتح پوری‘ آل احمد سرور‘ ؔ رشید احمد صدیی‘ ملا رموزی‘ ظفر علی خان‘ عبد المجید سالک‘ عبد السلام ندوی‘ نور الحسن ہاشمی‘ احتشام حسین‘ کرشن چندر وغیرہ مطالعہ کے لائق ہیں۔

 

مختصراًیہ کہ مضمون کے علاوہ اس کا عنوان بھی مختصر ہو نا چاہئے۔ مختصر عنوانات عموماً دلکش ہوتے ہیں اور اس کی دلکشی مضمون کی قدر وقیمت میں اضافہ کرتی ہے۔

انشاء پردازی کا خاص اصول یہ ہے کہ رسالہ یا کتاب کا اقتباس پیش کیا جائے۔ اپنے ماخذ کا حوالہ دینے سے مضمون مستند اور معتبر ہوجاتا ہے اور قاری بھی اس سے مستفید ہوگا۔

 

معاشی نقطہ نظر سے بھی فن انشاء پردازی بہت کار آمد ہے۔ اچھے مضامین کی علمی دنیا میں قدر ہوتی ہے۔ اخبارات ورسائل ان کو شائع کرتے ہیں اور لکھنے والے کو اس کی محنت کا معاوضہ بھی مل جاتا ہے اور ہر ملک میں ہزاروں لکھنے والوں کا ذریعہ معاش مضمون نویسی پر ہے۔

 

اس کے علاوہ انشاء پردازی سے اور بھی فائدے ہیں انشاء پردازی انسان کے لئے دلچسپی اور تفریح کا ایک اچھا ذریعہ ہے کیوں کہ اکثر فکروں اور پریشانیوں سے تنگ آکر آدمی کسی ایسے مزاحی مضمون کی تلاش میں رہتا ہے جس کا دل بہل سکے۔ایسے موقع پر یہ فن بہت کار آمد ثابت ہوتا ہے۔

 

بہر حال انشاء پردازی ایک مفید ترین فن ہے۔جن کا سیکھنا اور اس کی عملی مشق کرنا ہر پڑھے لکھے انسان کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ علمی وادبی اعتبار سے بھی اپنے خیالات وجذبات کو دلنشین پیرایہ میں لکھنا اعلی وادبی خدمات ہیں۔ اور اس خدمات کو انجام دینا اہل علم کا ادبی فریضہ ہے۔ مشہور شاعر میر انیس نے کیا خوب کہا ہے کہ   ؎

گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

ایک پھول کا مضمون ہو تو سورنگ سے باندھوں

 

یہ بھی پڑھیں:

ادب اطفال کی اہمیت اور ضرورت... تحریر: ڈاکٹر تبسم آراء

مرشد دعا کیجئے۔۔۔ فاروق شہزاد ملکانی - Urdu Poetry


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے