کلام مرزا داغ دہلوی اور قیام حیدرآباد تحریر: ڈاکٹر تبسم آراء

 

کلام مرزا داغ دہلوی اور قیام حیدرآباد

کلام مرزا داغ دہلوی اور قیام حیدرآباد

تحریر: ڈاکٹر تبسم آراء

 

  غزل اردو شاعری کی جان وآبرو ہے اور داغ دہلوی اردو غزل کی آبرو ہے ۔ مرزا غالب ‘ مومن ‘ شیفتہ ‘ میر تقی میر ‘ میر ظفر نے اس صنف سخن کو تاب وتوانائی عطا کی ہے اسے برقراررکھنے میں داغ دہلوی کا خاصہ دخل رہا ہے داغ ہی نے اردو ز بان کو ایک ایسا نیا لہجہ اور نیا اسلوب غزل عطا کیا ہے ۔ داغ کے غزل کے تیور بڑھے بانکے ہیں ان کی غزل کی روایت سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے بھی کب نئے پن کا حامل نظر آتا ہے اور یہ ان کے مخصوص مزاج کی دین ہے ۔ داغ کے مزاج اور ان کے لہجہ نے اردو شاعری کے روایتی اور گھسے پیٹے موضوعات کو نیا رنگ وروپ دیا ۔ ” بقول شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال

اب کہاں وہ بانکپن وہ شوقی طرز بیاں

تھی حقیقت سے غفلت فکر کی پرواز میں

25مئی 1831عیسوی کو دہلی میں والی فیروز پور جھروکہ نواب شمس الدین خان کو لڑکا ہوا جو آگے چل کر جہاں استاد ناظم یارجنگ ‘ دبیر الدولہ بلبلہ ہندوستان نواب فسیح الملک مرزا خان داغ دہلوی کہلایا ۔ داغ کا پورا نام یوں تو ابراہیم رکھا گیا تھا ۔ لیکن جب بڑے ہوئے تو انہوں نے اپنا نام بدل رکھا مرزا خان رکھ لیا ۔ داغ کی شخصیت میں اور ان کی شاعری کی تہذیب وتنزمین نو لال قلعہ کی فضا کا بڑا حصہ رہاہے وہ لال قلعہ میں جب مغل سلطنت کی شمع گل ہو رہی تھی لیکن اردو شاعری کی محفل میں چراغاں ہی چراغاں تھا ۔ داغ 14 برس کی عمر میں قلعے میں داخل ہوئے ‘ ان کی زندگی مجموعی طور پر خاص اطمینان بخش گذری اور حیدرآباد میں تو دنیائے شعر وادب میں انہو ںنے اپنا سکہ بٹھایا ۔

سبق ایسا پڑھادیا تو نے ٭دل سے سب کچھ بھلادیا تو نے

لاکھ دینے کا دینا ہے ٭دل بے مدعا دیا تو نے

نواب میر محبوب علی خان کی سرپرستی میں اور فیاضی سے مستفید ہوئے ان کی زندگی رنگینیوں میں گذری اس غزل میں ان کی جھلکیاں ملتی ہے ۔

 

برادامتانہ سر سے پاو ¿ں تک چھائی ۔ اف تری کافرجوانی جوش پر آتی ہوئی

قیامت ہے بانکی ادائیں تمہاری ۔ ادھر آو ¿ لے لوں بلائیں تمہاری

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتادو مجھ کو ۔ دوسرا کوئی تو اپنا سا بتاؤ مجھ کو


کلام مرزا داغ دہلوی :

کلیات داغ “کتاب ترتیب وپیشکش سعید خان پیش کرتے ہے کہ مرزا داغ دہلوی کا شمار اردو زبان وادب اور غزل کے متفرد وعظیم المرتبت شاعروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے بیان کے ایسے دریان بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہو رہا ہے وہ دنیائے ادب میں فصیح الملک نواب مرزا خان ‘ جہاں استاد ادب میں فصیح الملک نواب مرزا خان جہاں استاد بیر الدولہ ” بلبل ہندوستان “ اور ناظم یار جنگ کے خطابات سے نوازے جاتے ہیں ۔ داغ دہلوی زبان کے بے مثل امین اور قدیم غزل کے نمائندہ گوشاعری ہے ۔ غزل ان کی محبوب صنف ہے مگر انہوں نے دوسری اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ داغ کی غزلوں میں زبان کا چٹخارہ محاوروں کی کثرت ‘ فصاحت وبلاغت ‘ اعلی تخیل بلند پروازی ‘ حسن وعشق کی کار فرمائیوں کا ذکر بڑے ہی موثر انداز میں موجود ہے ۔

داغ معاملات محبت کو بڑی چابک دستی سے شعر کے قالب میں ڈھالتے تھے اور حق یہ ہے کہ ان کے دور میں اس کے بعد بھی اردو کا کوئی شاعر ان کے سے تیور اپنے شعر میں پیدا نہ کرسکا ۔


تفصیل کا نام داغ :

چاردیوان کے یاد گار ہیں یعنی گلزار داغ ‘ آفتاب ‘ مہتاب داغ اور یاد گار اور ایک مثنوی فریاد داغ بھی لکھی ۔ ان سب میں سے دو دیوان گلزار داغ آفتاب داغ اور مثنوی فریاد داغ رام پور ی اور باقی دو دیوان حیدرآباد کے زمانہ قیام کی یاد گار ہیں ۔


گلزار داغ :

یہ داغ کے کلام کا پہلا مجموعہ ہے ۔ جو مطیع تاج المطابع رام پور میں 1879 میں چھپا تھا ۔ اس میں 389 غزلیں ہیں جن کے اشعار کی مجموعی تعداد 4943 ہے ۔


آفتاب داغ :

یہ داغ کے کلام کا دوسرا مجموعہ ہے پہلی بار 1884 میں مطبع انوار الاخبار لکھنو میں چھپ کر شائع ہوا تھا ۔ اس میں 129 غزلیں ہیں جن کے اشعار کی مجموعی تعداد 1752 ہے ۔


مہتاب داغ :

یہ داغ کے کلام کا تیسرا مجموعہ ہے ۔ 1892 میں مطبع عزیز دکن حیدرآباد میں شائع ہوا تھا اس میں 292 غزلیں ہیں ۔ جن کے اشعار کی مجموعی تعدادی 4176 ہے ۔


یاد گار داغ :

یہ داغ کے کلام کا چوتھا مجموعہ ہے جو ان کے انتقال کے بعد 1905 میں اسلامیہ اسٹیم پر ہیں لاہور میں چھپا تھا بعد میں اس دیوان کا تتمہ بھی شائع ہوا تھا ۔ اس دیوان میں 156 غزلیں ہیں جن کے اشعار کی مجموعی تعداد 1776 ہے ۔


مثنوی فریاد داغ:

یہ مثنوی زمانہ قیام رام پور میں کہی گئی تھی اور پہلی بار 1884 میں شائع ہوئی ۔

داغ کے کلام کا یہ وصف کہ وہ کبھی بھی یوں بات کرتے ہے کہ شعر ڈرامے کے کم وبیش سارے عناصر موجود معلوم ہوتے ہیں ۔ واقعات کا پھیلاو ¿ ان کا چڑھاو ¿کشمکش ‘ نقطہ عروج مسئلہ کا حل واقعات کا سمٹنا اور انجام ‘ سبھی کچھ داع کے اشعار میں پایا جاتا ہے ۔ یہ مشہور شعر

تم کو ہے وصل غیر سے انکار

اور جو ہم نے آکے دیکھے

تصویر یہ ناز ہو ‘ تمہارا کیسا ہے

آنکھ نرگس کی ‘ دھن غنچہ کا حیرت میری

اب تو گھبراکے یہ کہنے ہے کہ مرجائیں گے

مرکے بھی چین نہ پایا یا تو کدھر جائیں گے


داغ دہلوی کا قیام حیدرآباد : 1305ء۔1322 ء


داغ دہلوی پہلی مرتبہ حیدرآباد تشریف لائے تو افضل گنج میں محبوب گنج کمان کے بازو سیف الحق صاحب کے بنگلہ پر ٹھہرے تھے ۔ داغ نے اپنے افضل گنج ٹھہرنے کا ذکر بھی ایک شعر میں کہا ہے


اُڑاتے ہیں میزے دنیا کے ہم ایسے داع گھر بیٹھے

دکن میں اب تو افضل گنج اپنی عیش منزل ہے


حیدرآباد کے مختصر قیام کے دوران وہ یہاں کے اکثر مشاعروں میں شریک ہوئے ۔ انہوں نے حیدرآباد میں پہلی مرتبہ جو غزل مشاعرہ میں سنائی ۔ اس کے کچھ اشعار ہے

لے چلا جان میری روٹھ کے جانا تیرا ۔ایسے آنے سے بہتر ہے نہ آنا تیرا

آرزو ہی نہ رہی صبح وطن کی مجھ کو ۔ شام غربت ہے عجب وقت سہاتا تیرا

حیدرآبادیوں نے جس خلوص اور تپاک سے ان کا خیر مقدم کیا تھا ۔ اس کی طر ف اشارہ ہے ۔

کعبہ ودیر میں چشم ودل عاشق میں

انہیں دو چار گھروں میں ٹھکانہ تیرا

اسی طرح دوسری غزل بھی داغ نے مشاعرے میں سنائی جس میں حروف روی ہے ۔ اس کا مطلع ومقطع ہے ۔


داغ ہر ایک زبان پر فسانہ تیرا ۔ وہ دن آتے ہیں وہ آتا ہے زمانہ تیرا

مرزا داغ ہو شاہ دکن مورد لطف ۔ اور دن رات رہے جشن شہانہ تیرا


ان کے شاعری کے کئی پرستار تھے حیدرآباد میں ۔ انہوں نے جلدہی حیدرآباد میں اپنا مقام بنالیا ۔ اور ہر خاص وعام میں مقبول ہوگئے ۔ ان کے کلام ” گلزار داغ “ کے شہرت بھی پہنچ چکی تھی ۔ اور دال کی منڈی کی ناٹک میں جو حیدرآباد میں پہلی مرتبہ ہوا تھا ، ان کی غزلیں گائی جاتی تھیں جس کی وجہ سے عوام الناس بھی ان کے کلام سے واقف ہوگے تھے ۔ اور بعض لوگ خط وکتابت کے ذریعہ ان کے شاگرد بھی ہوچکے تھے ۔ داغ سے ہر خاص وعام میں مقبول ہونے کے باوجود ان کی دربار تک رسائی نہ ہوسکی ۔ انہوں نے جتنی ہوسکی تگ ودو کی ۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں بات رہی ہو تو وہ 12 جولائی 1889 کو حیدرآباد سے دہلی پہنچ گئے ۔ پر اپنے پرستاروں کی ایماءپر داغ نے دوبارہ حیدرآباد 14 اپریل 1890 کو حیدرآباد تشریف لائے ‘ اب پہلے سے زیادہ حیدرآباد میں داغ کی شہرت ہوچکی تھی ۔ نواب میر محبوب علی خان آصف سادس نہ صرف داغ سے متعارف ہوئے بلکہ ان کے مداح بن گئے ۔ 6 فبروری 1891 کو نواب میر محبوب علی سادس نے داغ کو بہ غرض اصلاح اپنی غزل بھیجی اور دوسرے دن میں حاضری کا حکم دیا ۔ داغ کی تقدیر چمک اٹھی ۔ داغ نے غزل کی قولاً اصلاح کی ۔ اور پھر داغ دہلوی کا وظیفہ مقرر کردیا گیا ۔ چار سو پچاس 450روپئے ماہوار وظیفہ مقرر ہوگیا ۔ اور دو تین سا ل بعد اس وظیفہ میں ساڑھے پانچ سو اضافہ ہوا ۔ داغ نے اس کی وضاحت اس طرح کی ۔


ہوگیا میرا اضافہ آج دونے سے سوا

یہ کرم اللہ کا ہے یہ عنایت شاہ کی ہے

اس اضافہ کی ہو اے داغ یہ تاریخ تم

ابتداءسے اپنی ساڑھے پانچ سو تنخواہ بڑھی


اب داغ کے اعزازات میں اضافہ ہوتا گیا ۔ انہیں کئی خطابات سے نوازا گیا ۔ منصب چہار ہزار سوارو علم ونقارے سے بھی سرفراز کیا گیا ۔ نواب میر محبوب علی خان نے جاگیر میں ایک گاو ¿ں عطا کیا اور ایک باغ بھی ۔

غرض حیدرآباد میں نواب میر محبوب علی خان آصف سادس نے داغ کی نہایت قدر ومنزلت کی ۔ دربار میں مخصوص امراءاور اعلی ترین عہدیداروں کے ساتھ داغ کی حیثیت ہوئی ۔ یہ اعزاز استاد شاعر ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ۔ کہاجاتا ہے کہ داغ نے اپنی آن بان برقرار رکھی ۔ وہ بغیر طلبی کبھی دربار نہیں گئے ۔ جنوری 1903 ءمیں ایڈروڈکی ۔ کی تاج پوشی کی مسرت دہلی میں دربار منعقد ہوا ۔ حضور نظام نے بھی شرکت کی ۔ اس وقت چند عمائدین سلطنت نظام کے تھے ۔ ان میں داغ بھی تھے ۔ اس سے داغ کی اہمیت اور ان کی مرتبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ داغ کو نظام حیدرآباد کا غیر معمولی تقرب حاصل تھا ۔ سیر وتفریح اور شکار وغیرہ میں نے نظام حیدرآباد کے ہمراہ ہوتے ۔ ” قیاس ہے کہ

داغ 17 سال حیدرآباد میں رہے ہوں گے اور نہایت کروفر ‘ شان وشکوہ اور جاہ وجلال کے ساتھ جو بہت کم شاعروں کو میسر ہوگا ۔

داغ نے اپنے طور پر نہ کوئی گھر بنوایا اور نہ خریدا ۔ ہمیشہ کرانے کے مکان میں رہے اور حضور نظام نے غالباً اس طرف توجہ دی ۔ 

(بحوالہ ایم اے غیر افسانوی ادب (

آخری ایا م میں داغ کی صحت خراب رہنے لگی تھی جسم کے بائیس جانب فالج کا حملہ ہوا تھا ایک ہفتہ تک زندگی اور زیست کی کشمکش میں مبتلا رہے ۔آخر میں عید الاضحی سے ایک روز قبل 9 ذی الحجہ 1323 ھ مطابق 14 فبروری 1905 ءکو داغ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ آصف سادس کو اپنے استاد کی رحلت کا نہایت غم رہا ۔ انہوں نے داغ کی تجہیز وتکفین کے لئے تین ہزار روئے ادا کئے ۔ اور عید الاضحی کی صبح داغ کی نماز جنازہ تاریخی مکہ مسجد حیدرآباد میں ادا کی گئی ۔ اور احاطہ درگاہ یوسفین میں اپنی بیوی کے پہلو میں ان کی تدفین عمل آئی ۔ شمع خاموش ہوگئی ۔بلبل ہندوستان ہمیشہ کے لئے سوگیا ۔

ان کے ہم عصروں اور شاگردوں نے داغ کی وفات کی تاریخ لکھی لیکن ان میں ” نواب مرزا داغ ‘’ جس میں ان کے نام سے اور تخلص سے تاریخ نکالی گئی ۔(بحوالہ کتاب ایم اے غیر افسانوی ادب مولانا آزاد یونیورسٹی )

اپنے بارے میں انہوں نے خود کہہ چکے تھے کہ


آج راہی جہاں سے داغ ہوا

خانہ عشق بے چراغ ہوا

داغ تجھ کو باغ جنت ہو نصیب


Tabassum Ara

Jamia Osmania University

P.H.D Reserach Scholar

9014782089

 یہ بھی پڑھیں

ڈاکٹر تبسم آراء مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ سے سرفراز

ڈاکٹر زینت ساجدہ کی انشائیہ نگاری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے