اردو شاعری: فاروق شہزاد ملکانی
وہ سچ کہتا ہے
مگر اس کی کوئی نہیں سنتا
میں صاف صاف کہتا ہوں
مگر کوئی نہیں سنتا
تو کیا کہے گا سب مجھے معلوم ہے
اس لئے میں تیرا انٹرویو نہیں سنتا
سب تیری سنتے ہیں، سب
تمہارے ساتھ ہیں
مگر جو سچے ہیں ان کی کوئی نہیں سنتا
تو بول دیکھتا ہوں لوگ
تمہاری کہاں تک سنتے ہیں
جھوٹ نہیں بکتا ، جھوٹ کوئی نہیں سنتا
ارے یہ کیا یہاں تو سب تیرے دیوانے ہیں
سچ بے چارا علیل ہے اس کی کوئی نہیں سنتا
سب یہاں
جڑیں اپنی کاٹنے میں یوں مگن ہیں کہ
مجھے کوئی نہیں دیکھتا میری کوئی نہیں سنتا
ارے بد بختو میری نہیں کچھ اپنی تو فکر کرو
جگا رہا ہوں سب کو مگر میری کوئی نہیں سنتا
کھاؤ جی بھر کے کھاؤ مگر مرغی تو چھوڑ دو
انڈے کہاں سے لاؤ گے مگر یہ کوئی نہیں سنتا
یہ ملک انمول تحفہ ہے یارو سنبھل جاؤ
یہ فلسطینیوں سے پوچھ لو مگر کوئی نہیں سنتا
ڈرو خدا کیلئے، خدا کے پاس بھی جانا ہے
حرص و ہوس چھوڑ دو مگر کوئی نہیں سنتا
مال و زر کے دیوانے ہیں سبھی یہاں پر تو
حاکم و محکوم سب ، مگر میری
کوئی نہیں
سنتا
دیکھو سامنے کھائی ہے، دیکھو سامنے آگ ہے
سنو سنو لوگو سنو،
ہائے میری کوئی
نہیں سنتا
چیخ چیخ کے تھک چکا
ہوں
بیٹھ گیا ہوں لوگو
سن لو کسی اپنے کی
شہزاد
مگر کوئی نہیں سنتا
کلام: فاروق شہزاد
ملکانی
یہ بھی پڑھیں:
پوچھا غم دل سے کسی نے کہ آخر ہوا کیا
ہے۔ کلام ۔ فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے