ڈاکٹر زینت ساجدہ کی انشائیہ نگاری

ڈاکٹر زینت ساجدہ کی انشائیہ نگاری

  

ڈاکٹر زینت ساجدہ کی انشائیہ نگاری

یوں تو اردو ادب میں کئی اصناف ہے۔ انہیں اصناف میں سے ایک صنف ہے ”انشائیہ“۔ انشائیہ اردو ادب میں ایک نئی اور غیر معمولی اہمیت کی حامل غیر افسانوی صنف ہے۔ انشائیہ صنف انگریزی سے اردو میں آئی۔ اور اس کے لغوی معنی ہے ”عبارت“۔ بات سے بات پیدا کرنا اور طرز تحریر وغیرہ ہیں۔


انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے جو ایک مختصر ادبی مضمون کے ہوتے ہوئے بھی مضمون سے الگ رہتا ہے۔ اس میں تاثرات ومشاہدات وغیرہ کئے جاتے ہیں۔ شگفتگی اور شائستگی اس کا اہم عنصر ہے۔ انشائیہ کی تعریف میں ڈاکٹر جانسن کہتے ہے کہ ”انشائیہ ذہن کی آزاد ترنگ ہے“۔


ڈاکٹر زینت ساجدہ

ترقی پسند تحریک سے گہری وابستگی رکھنے والی ڈاکٹر زینت ساجدہ ایک ناقابل فراموش مقام رکھتی ہے۔ ان کا پورا نام خواجہ زینت ساجدہ بانو ہے اور قلمی نام زینت ساجدہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ 26 مئی 1926 ؁ء میں قلعہ رائچور میں پیدا ہوئی۔اور ان کی ابتدائی تعلیم کاچی گوڑہ کے اسکول میں ہوئی۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے کیا۔ اشرف بیابانی کی”نوسر ہار“تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


ڈاکٹر زینت ساجدہ نے 1947 ؁ء سے بحیثیت لکچرراپنے ادبی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ اور یہ  افسانہ نگار ’نقاد‘ محقق‘ ادیب‘مترجم‘ انشائیہ نگار اور کتنے ہی صلاحیتوں کا مجسمہ رہیں۔ ویسے تو زینت آپا افسانہ نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ اور انہیں اعلی مقام حاصل ہیں لیکن ان کے انشائیہ بھی اردو ادب کا بیش بہا قیمتی سرمایہ ہیں۔


ڈاکٹر زینت ساجدہ کی انشائیوں اور افسانوں کی کتاب ہے ”اسلوب بیان اور“ جس میں پہلا حصہ انشائیو ں کا۔ اور دوسرا افسانوں کا ہے۔ انشائیوں کے مجموعہ میں 16 انشائیے ہیں جن میں زینت آپا کا انشائیہ ”کاکروں سنگھار ا پیامورا اندھا“ پیامور اندھا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت میں پیا اندھا ہے۔ بلکہ یہ ہے  وہ لکھتی ہے کہ ”دور ہو کہ نزدیک ہر چیز اچھی طرح صاف دکھائی دیتا ہے۔ باریک سے باریک لکھائی آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ لوگوں کے چہروں کے بدلتے رنگ آسانی سے پڑھ لیتے۔ ان سب صفات کے باوجود نظر نہیں آتا توان کو میرا بنا سنگھار‘ اور نہ لباس پر توجہ دیتے ہے۔ میکپ میں دلچسپی نہیں ان کو میری“۔ پیا کی بے حسی پر جلتی کڑھتی ہے یہ ہمیشہ۔ اس لئے یہ کہتی ہے کہ ”کاکروں سنگھار پیامورا اندھا“۔


ایک اور انشائیہ ہے۔ زینت آپا کا ”چلی گئی گرمی۔ جب بیلا پھولے ……آدھی رات“ اس انشائیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ ”آدمی کم بخت کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ گرمی آئی تو ہائے ہائے کرتے دن گذارتے۔ جسے دیکھو گرمی کی شکایت کرتا ہے‘ پسینہ بہہ رہا ہے اور دل پریشان ہے۔ لیکن اب یہ سوچتے کہ گرمی سو نعمتوں کی ایک نعمت ہے۔ گرمیوں میں تعطیلات جو ہر کسی کو خوشی کا پیغام لے کر آتی ہے‘ آم اور املی کے گھنے پیڑ پر جھولے جھولنا‘ برسات سے زیادہ گرمی کی چاندنی میں مزہ آتا ہے۔ اور ایک نعمت ایسی ہے کہ پھلوں کا راجہ آم بھی گرما میں آتے ہیں۔ اور امیر ہو کہ غریب اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔


زینت ساجدہ چونکہ حیدرآباد کی بیٹی ہے اور ان کے انشائیوں میں حیدرآباد کی کوئی بات نہ ہو۔یہ کیسے ممکن ہے۔ چار مینار پر غلاف‘ گنڈی پیٹ کا پانی اور کباڑ خانے سے میوزیم تک۔ان کے انشائیے ہیں۔ جس میں حیدرآباد کی تاریخ وتہذیب وتمدن کے علاوہ گذرتے زمانہ کے ساتھ حیدرآباد یوں کی طرززندگی  پیش کی گئی ہے۔ ”کباڑ خانہ سے میوزیم تک“ اس انشائیہ میں ”تیمور کی گھوڑی کا نعل“۔ ”بابر کا چغّہ“۔ ”اکبر کا حقہ“۔ ”شہزادی زیب النساء کا قلم“۔ ”محمد قلی قطب شاہ کی انگوٹھی“۔ ”ابراہیم عادل شاہ کا تانپورہ“۔ عبد القادر کے مونچھ کے بال“۔ ”رانا سانگا کی ڈھال“۔ ”راجہ جئے چند کی پگڑی“۔محمد قلی سے لے کر مرزا داغ تک ہر شاعر کے کلام کے قلمی نسخے‘ بادشاہوں‘ بیگموں‘ راجاؤں‘ درباریوں‘ رقاصوں‘ اورنگ زیب کی اکلوتی تسبیح دس بار‘ بھاگ متی کا اگر دان پندرہ بار اور لال کنور مثی کو دربار پہنچنے کی بات کہی گئی ہے۔


انشائیہ ”گنڈی پیٹ کا پانی“ میں بیرونی ریاستوں سے حیدرآباد کے مضافاتی علاقوں میں لوگوں کے مستقل بنے‘ حیدرآباد کی میزبانی سے مکمل استفادہ اور اپنا مستقبل سنوارنے کے باوجود حیدرآباد کی میزبانی کو بر بھلا کہتے ہوئے اپنے آبائی مقام کی مدح سرائی جیسے تلح حقائق کو پیش کیا ہے۔


بہر حال زینت آپا نے اپنے انشائیوں میں جہاں زندگی کے اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے وہی ان کا اسلوب بظاہر انتہائی سادہ لیکن مقصد کافی گہرا ہوتا ہے۔ اور ان میں تحریر کی سادگی اور عام بول چال کے الفاظ دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ان میں گہرا پیغام اور مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔


زینت آپا نے طنز کے تیر چلائے ہیں اور نہ مزاح کے مگر بیشتر جملوں میں چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ کر سوچنے والوں کے لئے لمحات فکر فراہم کئے۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا روشن باب ہیں اور اگر چند انشائیوں کو آفاقی کہاجائے تو ان کے انشائیوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا۔ زینت آپا کا یہ شعر ہے۔

 

یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر

اسی سے فقیری میں میں ہوں امیر

مرے قافلہ میں لٹادے اسے

لٹادے ٹھکانے لگا دے اسے

                                                                                   

 

          ڈاکٹرتبسم آراء 

پی ایچ ڈی اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی

   9014782069

یہ بھی پڑھیں:

مولانا ابو الکلام آزاد کا تعلیمی فلسفہ

اُردو انشائیہ کا آغاز و ارتقاء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے