مولانا ابو الکلام آزاد کا تعلیمی فلسفہ
تحریر: ڈاکٹر تبسم آراء
افراد
اور اقوام کی زندگی میں تعلیم وتربیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد کی ساری زندگی
کی عمارت اس بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور اقوام تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین
مقاصد حیات‘ تہذیب وتمدن اور اخلاق کا اظہار کرتی ہیں۔
افراد
کے ہاتھوں میں ہیں اقوام کی تقدیر
ہر
فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
مولانا ابو الکلام
آزاد کا یوم پیدائش ملک بھر میں 2008ء قومی یوم تعلیم کے طور منایا جارہا ہے۔ مولانا
آزاد کی پیدائش 11 نومبر 1888 ء میں عرب کے شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کا نام محی
الدین احمد تھا۔ جو بڑے ہونے کے بعد مولانا ابو الکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوئے۔
وہ 15 اگست 1947 سے یکم فروری 1958 تک ہندو ستان کے پہلے وزیر تعلیم رہے تھے۔ بحیثیت
ایک ماہر تعلیم اور مجاہد آزادی مولانا آزاد نے تعلیم یافتہ ہندوستان کی بنیاد رکھی
وہ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کے بہت سے اہم پہلو ہے۔ وہ اگر مجاہد آزادی
تھے عالم دین بھی تھے انہیں قرآن‘ فقہ‘ علم الکلام‘ علم الحدیث پر غیر معمولی قدرت
حاصل تھی۔
علم
وادب میں جس کی بڑی دھوم دھام ہے
مہر وفا خلوص کا جو پیش
امام ہے
وہ
ایک عظیم‘ خطیب‘ صحافی‘ عالی مرتبہ‘ عظیم دانشور‘ بلند پایہ مفکر‘ فلسفی اور قومی رہنما
تھے۔ مسلم معاشرے میں تعلیمی شعور بیداری کو اجاگر کرنے میں ان کااہم رول رہا ہے۔ مولانا
نے قرآن وحدیث کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر
شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اردو‘ عربی‘ فارسی کے ماہر اور مشرقی عالم تھے۔ معلم
اور ماہر تعلیم کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک تو وہ لوگ جو تعلیم کے اصولوں
اور نظریوں کا با قاعدہ مطالعہ کرتے ہیں۔اسکولوں اور کالجوں میں اس کا عملی تجربہ کرتے
ہیں۔ ان کو فن تعلیم کا ماہر سمجھا جاتا ہے دوسرے وہ لوگ جن کو قدرت نے فکر دیا ہے۔
جوفلسفہ مذہب‘ سیاست میں گہری نظر رکھتے ہیں۔ جو جانتے ہے کہ دنیا میں انسان کا کیامقام
ہے۔ یہ لوگ زندگی کو نئی قدروں اور نئے سمتوں سے روشناس کراتے ہیں اور تعلیم کو ان
کے حصول کا ایک ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں حسین خواب کی واضح تصویر ہوتی
ہے جس میں ان کا تخیل رنگ بھرتا ہے۔ مولانا آزاد انہی معلموں میں سے ہے جن کی ساری
زندگی 13برس کی عمر سے ہی اس خواب کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے مذہبی‘
اور فلسفیانہ نظر‘ سیرت کی بلندی وقار سیاسی‘ سوجھ بوجھ‘ حق پرستی‘ انصاف پسند ی‘ خدمت
اور ایثار‘ انسان دوستی‘ حوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کا شاندار جہاد شروع کیا۔ جس کا
مقصد افراد کی بہتر تربیت‘ ان کی ذات میں بلندی نظر‘ جرأت‘ رواداری اور دیانت داری
کے چراغ روشن ہو اور بہتر سماج کی تشکیل ہوں۔
مولانا آزاد کا تعلیمی فلسفہ
مولانا آزاد
کے تعلیمی فلسفہ کی بنیاد چار امور پر ہے‘ ذہنی بیداری‘ اتحاد وترقی‘ رواداری اور عالمی
اخوت‘ تعلیمی معاملات میں انہوں نے نہایت ہی دانش مندانہ اقدام اٹھائے‘ ان کا خیال
تھا کہ مشرق ومغرب کی مشترکہ آگاہی سے ہی صحیح علم حاصل ہوتا ہے۔ اور ان نظریات سے
استفادہ کیا جائے تاکہ انسان اس کا صحیح استعمال کرنا سیکھ جائے۔
مولانا آزاد اردو‘ عربی اور فارسی کے ماہر تھے۔ اس کے باوجود انہو ں نے انگریزی کو ملک سے جلا وطن نہیں کیا۔ بلکہ نظام تعلیم میں اس کو قائم رکھا۔ اور Technichal Education کو فروغ دیا۔ بچوں کی تعلیم کا منصوبہ بنایا۔ تعلیم نسواں پر زور دیا۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (University Garants Comission)تشکیل دیا۔ ساہیتیہ اکیڈیمی کا قیام عمل میں لائے اور Institute of Technology قائم کئے۔
مولانا ابو الکلام آزاد (ایک مطالعہ) اس کتاب میں خواجہ غلام الدین لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد کے نظریہ میں اگر انسان محض ایک ترقی یافتہ حیوان ہے تو وہ سائنس کے ذریعہ صرف انہیں اغراض ومقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ جن کی بنیاد اس کے حیوانی جذبات او ر جبلتوں پر رکھی گئی ہے۔ بر خلاف اس کے اگر وہ ذات الٰہی کا پر تو ہے تو سائنس کو بھی مشیت الٰہی کا وسیلہ بنائے گا۔ اس طرح اس کی مدد سے دنیا میں امن اور سلامتی انسان دوستی کی کارفرمائی قائم ہوسکتی ہے۔
مولانا کی ہمیشہ
یہ کوشش رہی کہ مشرق اور مغرب کے تعلیمی فلسفوں و ایک وسیع تر تصور میں جمع کرکے ایک
ایسے متوازن اور مکمل نظام تعلیم کی بنیاد ڈالی جائے جو فرد اور سماج کے ما بین ہم
آہنگی پید ا کرسکے۔
پھونک کر اپنے آشیانے کو
روشنی
بخش دی زمانے کو
اگر افراد کے
درمیان وحدت ہم آہنگی اور یکجہتی ہوگی تو ایک بہتر سماج کی تشکیل ہوسکتی ہے۔
الغرض مولانا
آزاد نے زندگی کا زیادہ حصہ تعلیم کو فروغ دینے اور انسانیت کی فلاح وبہبودگی میں گذارا
تاکہ لوگ بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کرکے کامیابی کی راہ پر گامزن ہو۔ بقول شاعر
ملک
میں ایک رو شن دماغ تھا نہ رہا
شہر
میں ایک چارغ تھا نہ رہا
تبسم آراء
پی ایچ ڈی اسکالر
عثمانیہ یونیورسٹی
9014782069
یہ بھی پڑھیں:
اُردو
انشائیہ کا آغاز و ارتقاء
شعبئہ
اردو جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کے زیر اہتمام توسیعی خطبہ کا انعقاد
0 تبصرے