اُردو انشائیہ کا آغاز و ارتقاء
تحریر: ڈاکٹر تبسّم آراء
ریسرچ اسکالر، جامعہ عثمانیہ
حیدر آباد
تعارف :۔
انشائیہ ادب کی خاص صنف ہے۔انشائیہ
ایک ایسی تحریر ہے۔ ذہن میں جو خیالات کو گرفت میں لاتی ہے۔انشائیہ کو انگریزی میں (Persenal Essey)کہتے
ہیں۔ اس میں شخصی تاثرات،احساسات،کیفیات لازمی طور پر ہوتے ہیں۔ یہ صنف عربی سے اردو
میں آئی۔ ذہن کی آزاد ترنگ انشائیہ کا خاصہ ہے۔ کسی وبھی موضوع کے بارے میں ذہن میں
جو خیالات آتے ہیں ان کو لطیف اور خوشگوار انداز میں بیان کرنا انشائیہ کے مفہوم میں
آتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کے Dr.Johnsonنے انشائیہ کے تعلق سے کہا
کہ It is a loose
of mindیہ انسانی دماغ کی ڈھیلی اور بے پرواہ قسم کی
اُڑان ہے۔
انشائیہ کے لغوی معنی عبارت
یا تحریر کے ہے۔ کچھ بات دل سے پیدا کرنا انشائیہ کہلاتا ہے۔ اردو کے ناقدین میں سے
بعض نے اردو انشائیہ کو بھی ایک طویل زمانہ عطا کرتے ہوئے ملاوجہی کی ؤسب رس کو جو
سترھویں صدی کی تصنیف ہے۔ اردو انشائیہ کی اولین تحریر قرار دیا ہے۔
سترہویں صدی سے بیسویں صدی
کے نصف تلک اردو کے پہلے انشائیہ نگار کے طور پر ملا وجہی، سرسید احمد خان، ماسٹر رام
چندر،محمد حسین آزاد، اکبر علی قاصد،مشکور حسینی اور ڈاکٹر وزیر آغا وغیرہ ہیں۔
وجہی کی سب رس میں انشائیہ
کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ لیکن انشائیہ کا باضابطہ طور پر آغاز سرسید سے ہوتا ہے۔
ان کا ایک مضمون ”اُمید کی خوشی“ انشائیہ کے تمام مطالبات کو پورا کرتا ہے۔ اس کے شخصی
انداز اور بیان کی شگفتگی دیکھنے سے انشائیہ کے اولین نمونوں میں شامل کرناضروری ہوجاتا
ہے۔ محمد حسین آزاد کا نیرنگ خیال ایک قابل قدر مجموعہ ہے انشائیوں کا۔ محمد عبدالحلیم
شرر نے بھی اس صنف ادب میں اچھے نمونے تخلیق کیے ہیں۔
سب رس بنیادی طور پر ایک داستان
ہے۔ یہ قطب شاہی سلطنت کے درباری شاعر ملا اسد اللہ وجہی دکن کی قدیم ترین تصنیف خیال
کی جاتی ہے۔ اور اس میں بیشترمقامات جن پر انشائیہ کا گمان ہوتا ہے۔ انہوں نے سب رس
میں واقعات، تخلیل آفرینی کو بروئے کار لاکر صوفیانہ تمثیل کو زندہ جاوید بنا دیا۔قصہ
حسن و دل،وجہی کے سحر طرز قلم کالمس پاکر فن داستان گوئی کی بندشوں میں محدود نہ رہ
سکا۔ اور وجہی کی تخلیقی جوہر نے سب رس میں انشائیہ کے رنگ جھلک اُٹھے۔
انشائیہ ہمارے ہاں مغرب سے
درآمد شدہ تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر جاوید ششٹ جنہوں نے سب رس سے وجہی کے61
انشایئے ترتیب دے کر پیش کئے وہ وجہی کو اردو کا اولین انشائیہ نگار اور انشائیہ کو
دیسی صنف تسلیم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
”اردو انشائیہ اپنی ایک انفرادیت
رکھتا ہے دور سرسید میں انگریزی ادب سے ہمارے انشایئے ضرور استفادہ کیے مگر یہ کہنا
غلط ہے کہ انشائیہ انگریزی سے آیا ہے ہمارے انشائیہ کا کلیتاً ہمارا انشائیہ ہے۔ ملاوجہی
انشائیہ کاباوا آدم ہے۔ جس وقت عالمی ادب میں انشائیہ کی صنف نے جنم لیا کم و بیش اسی
وقت ہمارا انشائیہ بھی عالم وجود میں آیا۔“(ڈاکٹر جاوید ششٹ انشائیہ بجیسی، نئی دہلی،
ص۵۱)
انشائیہ کے فنی سروکار میں
ڈاکٹر احمد امتیاز لکھتے ہیں کہ اردو میں انشائیہ نگاری کا آغاز و ارتقاء کی تین منزلیں
ہیں۔ پہلی منزل وہ تھی جب سرسید نے مضمون نگاری یا انشائیہ نگاری کا آغاز کیا تھا،اور
علمی و اصطلاحی مقاصد کو سامنے رکھ کر مختلف نوعیت کے مضامین لکھے تھے۔ انہیں مضامین
میں بعض ایسے مضامین بھی تھے جیسے کہ’امید کی خوشی‘بحث و تکرار‘ سراب حیات کاہلی‘ سمجھ‘خوشامد‘ہمدردی
وغیرہ جن میں انگریزی انشایئے (Essay)کے طرز کو اپنایا گیا تھا۔
اور آزادی کے ساتھ اپنے تجربہ کو پیش کیا گیا تھا۔
اس
دور میں محمد حسین آزاد نے بھی بہت سے مضامین لکھے۔مثلاً گلشن امید‘ سیر زندگی‘ سچ
اور جھوٹ کا روزنامہ‘انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا وغیرہ۔ جو اُن کے مجموعہ نیرنگ
خیال میں شامل ہیں۔ اس دور میں بھی الطاف حسین حالیؔ نے بھی انشایئے لکھے مثلاً زبان،زمانہ
گویا وغیرہ ہیں۔جو آزادی کے بعد 1950میں مضامین لکھے جاتے تھے لیکن اس زمانے میں مضمون
اور انشائیہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ بلکہ انگریزی Essayکے مترادف کے طور پر دونوں
(مضمون اور انشائیہ میں) کا رواج تھا۔ ایک اور اہم بات ہے کہ مذکورہ ماہرین ادب کے
مضامین جدید انشایئے کے نقشی اول ہے۔ یعنی جدید انشایئے 1960ء کے آس پاس وجود میں آئے۔گو
یا مذکورہ مضامین کا کردار بنیادی تھا۔ اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ انشائیہ نگاری کیا
اور کیسے تھی۔
اردو انشایئے کی دوسری منزل
وہ تھی جب عبدالحلیم شرر‘ سجاد انصاری،مہدی افادی، میر ناصر علی، خواجہ حسن نظامی،فرحت
اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، مولانا ابو الکلام آزاد، احمد شاہ، پطرس بخاری، فلک پیما،کرشن
چندر، کنہیالال کپور وغیرہ نے مضامین میں طنز و مزاح شامل کرکے انشایئے کی بنیاد کو
موثر بنا دیا۔ اور ان کو وسعت دیکر حقیقت کے نقوش پیدا کئے۔ اگر ہم عبدالحلیم شرر کے
مضامین پھول،برسات، کھلتا ہوا پتہ، بزم قدرت وغیرہ کا مطالعہ کرے تو اندازہ ہوگا کہ
یہ انشایئے میں کتنی دلکشی ہے۔ اسی طرح مہدی افادی کا خواب،خواب طفلی، آرزوئے شباب
ہے۔ میر ناصر علی کے مضامین میں مسکرانا، ہم اور ہماری ہستی، زندگی کی شام وغیرہ میں
انشائی رنگ بھرے ہیں۔ عبدالماجد دریا بادی کا جھوٹ میں سچ، الفاظ کا جادو وغیرہ بھی
بے حد پرلطف انشایئے ہیں۔ مٹی کا تیل، دیاسلائی، جھنگیر کا جنازہ، اُلّو، مرغ کی اذان
وغیرہ مقبول انشائی تحریریں ہیں۔رشید احمد صدیقی نے چارپائی، ارہر کا کھیت، دھوبی،
پاسبان وغیرہ کے ذریعہ انشائیہ نگاری کی پہچان بنائی۔ مولاناابولکلام آزاد کے انشایئے
جنگ کا اثر، اخلاق وغیرہ۔پطرس بخاری کے انشایئے کتے، سویرے جو کل آنکھ میری کھلی۔ کرشن
چندر کے انشایئے غسلیات۔رونا وغیرہ۔کنہیالال کپور کے انشایئے اخبار بینی، اپنے وطن
میں سب کچھ ہے، علی اکبر قاصد کے انشایئے،موٹر سائیکل، چھینک وغیرہ۔
مذکورہ ادیبوں کے مضامین ایسے
مشہور و معروف ہے کہ جن سے انشائیہ نگاری کی روایت آگے بڑھی اور اُسے استحکام بھی ملا
ان انشائیہ نگاروں کو اسلوب میں رنگا رنگی، دلکشی اور زندگی کی گہما گہمی ہے۔ اور اس
میں جدید انشائیہ نگاروں کے نقوش واضح نظر آتے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے چند ناقدین
پہلی اور دوسری منزل کے انشائیہ نگاروں کو انشائیہ تسلیم نہیں کرتے اس بات پر اڑے ہے
کہ انشائیہ نگار وزیر آغا اور ان کے انشائیوں سے انشائیہ نگاری کی ابتدا ہوتی ہے لیکن
کوئی بھی صنف یکایک وجود میں نہیں آتی۔ رفتہ رفتہ حالات کے اعتبار سے زینہ بہ زینہ
ایک منزل سے دوسری منزل دوسری منزل سے تیسری منزل۔اس طرح منازل کا سفر طئے کرتے ہوئے
مستند صنف وجود میں آتی ہے۔
اس طرح انشائیہ بھی سرسید
کے زمانے میں ابتدائی مرحلے میں تھی پھر رشید احمد صدیقی کے زمانے میں بالغ ہوئی اور
وزیر آغا کے زمانے میں جوان ہو کر ہم تک پہنچی ہے۔بقول ڈاکٹر احمد امتیاز”میرا خیال
ہے کہ جدید انشائیہ نگاری اپنی پہلی اور دوسری صورتوں کی بھی صاف ستھری اور سلجھی ہوئی
شکل یا اس کی توسیع ہے۔ سرسید نے روایتی نثر سے انحراف کرکے جس قسم کی نثر کو رواج
دیا تھا وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے بالکل نئی اور جدید تحریریں تھی۔ دوسری منزل کے نثر
نگاروں مضامین و انشاء کے روپ کو بدل کر نثر کو ایک نئے احساس سے دوچار کیا تھا۔ اور
تخلیقی شعور کی جو روش اختیار کی تھی وہ پہلی صورت کے مقابلے زیادہ واضح،منظم اور دلچسپ
تھی تیسری شکل ماقبل صورت سے مختلف ہے۔لیکن اسی کی بنیاد میں انشاء کی صورت صورت موجود
ہے۔
جدید انشایئے میں اسلوب و
انشاء کا جمال پہلے کے مقابلے زیادہ ہے۔ لہذا وزیر آغا نے جدید انشایئے کی تحریک چلا
کر انشایئے کے جس روپ کو اُبھارا ہے وہ ماقبل انشایئے کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس
لئے جن کا یہ کہنا ہے کہ انشائیہ نگاری کی ابتداء وزیر آغا سے ہوتی ہے محض جذباتی حقیقت
ہے۔ یہ درست ہے کہ جدید انشایئے میں ذہنی اخلاقیات کے عمل پہلے کے انشائیوں سے کہیں
زیادہ منظم،موثر اور معنی خیز ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انشایئے میں ہونے والی تبدیلی
کے سبب پہلے لکھے گئے انشائیوں میں سرے سے رد کردینا درست نہیں ہے۔(ڈاکٹر احمد انشائی
کے فنی سروکار۔ص۶۱تا۷۱)
یہ سچ ہے کہ ادب کی ہر صنف
منزل بہ منزل ترقی کرتی ہے۔انشائی نگاری نے بھی ترقی کی منزل طے کرتی ہوئی اپنی منزل
کو پہنچی ہے۔
بحرِ حال پاکستان کے قیام
کے تقریباً چودہ سال بعد ڈاکٹر وزیر آغاکے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’خیال یار‘ منظر
عام پر آیا۔ اور اس مجموعے کو انشائیہ نگاری کا نقطہ آغاز قرار دیا گیاہے۔ ڈاکٹر وزیر
آغا نے ہی انشائیہ کی اصطلاح کو متعارف کرایا۔اور اس صنف کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرنے
کے لئے متعدد مضامین تحریر کیے۔ اور انہوں نے انشائیہ کو باقاعدہ اس صنف کے طورپر متعارف
کرواکر اس کی شناخت قائم کیں۔ اور اس کی انفرادیت کو ہر طرح سے واضح کیا۔
”انشائیہ
نے زمین نثر کو زخیز کر دیا
جو
تخل بو دیا اسے گلریز کردیا۔“
0 تبصرے