یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
خواجہ
عزیز الحسن مجذوب برصغیر کی تاریخ میں ایک عظیم صوفی اور شاعر گزرے ہیں ۔ وہ جون
1884 میں پیدا ہوئے اور اگست 1944 میں وفات پائی۔ انہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم معروف
درسگاہ علی گڑھ سے حاصل کی۔ 7 سال تک ڈپٹی کلکٹر رہے مگر یہ عہدہ ان کی درویشانہ
طبعیت کو نہ بھایا اور مستعفی ہو کر معلم بن گئے۔ شاعری سے بے پناہ لگاؤ تھا۔
انہوں نے کئی کتابیں لکھیں ۔ ان کا کچھ کلام ان کی زندگی ہی میں شائع ہوا جبکہ بہت
سا کلام ان کی وفات کے بعد طبعات کے مراحل سے گزرا۔ ان کا لکھا ہوا صوفی کلام چاردانگ عالم مشہور ہوا۔ ان کا لکھا ہوا کلام " جگہ جی لگانے کی
دنیا نہیں ہے- یہ عبرت کی جا ہے تماشہ
نہیں ہے" آج بھی ہر طرف گونج رہا ہے۔ ان کا کلام سن کر اور پڑھ کر ہر حساس انسان کے
رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایک پل کیلئے تو وہ سب دنیاوی کام چھوڑ کر مجذوبیت
اختیار کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
اپنے
اس مضمون کے عنوان کے بارے میں بتانا اور یہ ابتدائیہ اس مصرعے کے خالق خواجہ
عزیزالحسن مجذوب کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ کیونکہ یہ کلام ہم میں سے بیشتر لوگوں
نے سنا تو ہو گا مگر شاید کم ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ بے مثال کلام کس کی تخلیق ہے
اس لئے ان کے نام سے آپ لوگوں کو متعارف کرانا بھی مقصد تھا۔
اب
آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ " یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے" ۔
جیسا کہ یہ مصرعہ ہمیں بہت کچھ سکھانے کیلئے کافی ہے مگر ہم لوگوں نے اپنی میراث
اور اپنے اس دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد کو بھلا دیا ہے۔ ہم لوگ اس دنیا کی
رنگینیوں میں کھو کر اس عارضی دنیا کو مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ ہم نے اپنے آپ سے
ہی سوچ لیا ہے کہ ہم نے اس دنیا میں سدا رہنا ہے۔ حالانکہ ہم اپنی بات چیت میں یہ
کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ، اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور
جگہ مقرر کی ہے اس پل ہی ہماری زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ اس طرح کا
بھاش ہر فرد کسی نہ کسی موقع پر جھاڑتا رہتا ہے۔ اگر کسی اور موقع پر نہیں تو موت
اور دکھ کی گھڑی میں تو ہر فرد یہ کہتا نظرآتا ہے لیکن وقت اور جگہ بدلتے ہی سب
بھاشن دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور ہمارے کرتوت پھر وہی رنگ اختیار کر لیتے ہیں جو
ہمارا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔
ہم
اپنے نیچے والے کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔
حالانکہ یہی وہ لمحہ " عبرت کی جا" ہوتا ہے جب ہم نے نہ صرف یہ سمھنا
ہوتا ہے بلکہ اس پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے کہ یہ کوئی " تماشہ نہیں ہے" ۔
مگر ہم ہر موت ، ہر سانحہ ، ہر حادثہ وقتی جذبات میں آکر محسوس تو کرتے ہیں کہ
" یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے"۔ مگر رات گئی بات گئی کے مصداق " یہ ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا
بنجارا" ہو جائے گا اور ہم دیکھ بھی
نہیں پائیں گے کہ ہمارے پیچھے ہوا کیا ہے۔ کیا ہمارے محبوب لوگوں نے ہمارے مرنے پہ
سوگ بھی منایا کہ نہیں کسی نے میری قربانیوں کو یاد بھی کیا کہ نہیں ، کسی نے میری
فراہم کردہ آسائشوں کی تعریف بھی کی کہ
نہیں یا میری طرح وقتی سوگ منایا اور زندگی رواں ہو گئی اور یہی حقیقت ہے اور اکثر لوگ یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ مرنے
والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا ، زندگی بھی گزارنا پڑتی ہے۔ یہ زندگی کا چلن ہے۔
حضور یہی زندگی کا چلن ہے مگر کیا اس سب سے عبرت
حاصل نہیں کرنا چاہئے کہ آخر ایک دن ہمیں بھی اس دنیا کو خیرباد کہنا ہے اور اپنے
حقیقی خالق کی جانب لوٹ کے جانا ہے، اس پر ہم کب مکمل یقین کریں گے اور کب اس یقین
کو اپنے تمام اعمال پر لاگو کریں گے۔ کب ہم اپنے عمل سے ثابت کریں گے " جگہ
جی لگانے کی دنیا نہیں ہے، یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے"۔ کسی دن بیٹھ کے سوچا کہ اس دنیا میں ہمیں
بھیجے جانے کا اصل مقصد کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو رب العالمین کہا ہے یعنی پوری دنیا کا رب۔ پوری دنیا میں تو تمام
عالم انسانیت آتا ہے۔ کسی فرقے ، کسی مذہب ، کسی شکل و صورت ، کسی جنس کا حوالہ نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو سیدھے راستے پر
رکھنے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول مبعوث فرمائے تاکہ ان کی تخلیق کی گئی
مخلوق اپنے مقصد تخلیق سے دور نہ ہو۔ اپنے اعمال کو اپنے مقصد تخلیق کے مطابق بنا
لے۔ یہاں زور اعمال پہ ہے اس لئے کہ صرف ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر یہ سوچتے تو
رہنا ہے مگر عمل بالکل مخالف سمت میں ہو تو کیا پھر مقصد تخلیق پورا ہو جائے گا۔
جس
طرح میں نے اوپر لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت اور تعلیم کیلئے ایک
لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول بھیجے اور حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا یوں نبوت اور رسالت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم کر
دیا۔ یعنی اب ہدایت کا واحد ذریعہ حضورﷺ کی سنت
و احادیث اور ان پر اتاری گئی پاک کتاب قرآن کریم ہیں۔ ہم سے پہلے والی
امتیں اپنے وقت کے حساب سے موجود نبی اور رسول پر ایمان لاکر ان کی تعلیمات پر عمل
کر کے ہدایت پاتی تھیں لیکن نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کی امت پابند ہے کہ ہم اللہ
تعالیٰ کی جانب سے اپنے محبوب ﷺ پر اتاری گئی کتاب ہدایت قرآن مجید، سنت نبویﷺ اور
احادیث سے ہدایات اور روشنی حاصل کریں ۔ ان کے بتائے گئے طریقوں کے مطابق زندگی
گزاریں۔ ان کی تعلیمات کی روشنی میں اس دنیا کو صرف عارضی ٹھکانہ ہی گردانیں ،
مخلوق خدا کی خدمت کریں ان کیلئے آسانیاں فراہم کریں ۔ تمام انسانوں کے حقوق کا
خیال رکھیں ۔
0 تبصرے