تاحیات نااہلی کیس، سپریم کورٹ نے سردار میربادشاہ قیصرانی کیس پر نوٹس لے لیا

تاحیات نااہلی کیس، سپریم کورٹ نے سردار میربادشاہ قیصرانی کیس پر نوٹس لے لیا


اسلام آباد ( اردو ورلڈ آن لائن ڈیسک) تاحیات نااہلی کتنی ہو گی، سپریم کورٹ آف پاکستان  نے سردار میر بادشاہ قیصرانی نااہلی کیس پر نوٹس لے لیا۔  اٹارنی جنرل آف پاکستان اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیا۔ کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہو گی۔

 

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لے لیا ہے۔  سپریم کورٹ  آف پاکستان نے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیئے۔ کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔

 

سپریم کورٹ کے مطابق موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ موجودہ کیس کا نوٹس دو انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیاجائے۔  

 

سپریم کورٹ نے نوٹس میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں لیا

 

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے۔ اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ قابل سماعت معاملہ کیسے ہے؟ جس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے کہا کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا۔

 

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟ جس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ  میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں نااہل کیا گیا۔ ہائیکورٹ نے 2018 کے انتخابات میں میر بادشاہ کو لڑنے کی اجازت دے دی۔ میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔  

 

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟  جس پر سردار میر بادشاہ قیصرانی کے وکیل نے جواب دیا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔

 

مزید ریمارکس اور جوابات

سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آرا ہیں،نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟ چیف جسٹس 

 

قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی پانچ سال کی ہوگی، وکیل درخواست گزار 

 

بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے، جسٹس اطہر من اللہ 

 

تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟ چیف جسٹس پاکستان 

 

حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے، وکیل درخواست گزار

 

الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر موثر ہو چکا، جسٹس اطہر من اللہ

 

الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا،الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہو گیا ہے، انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر، چیف جسٹس

 

الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلے غیر موثر ہو گئے، جسٹس اطہر من اللہ

 

امام قیصرانی 2007 کے انتخابات میں گریجویشن کی جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے،2018 کے عام انتخابات میں میر بادشاہ قیصرانی نے میٹرک کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، ہائیکورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی،آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت میر بادشاہ قیصرانی تاحیات نااہل ہیں اور انتخابات نہیں لڑ سکتے تھے، سپریم کورٹ نے فیصلہ نا کہا تو نااہلی کے باوجود آئیندہ انتخابات لڑیں گے، سردار میر بادشاہ قیصرانی کی سزا کے خلاف اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، سپریم کورٹ ہائیکورٹ کو حکم دے کہ اپیل پر فیصلہ کرے، وکیل سردار میربادشاہ قیصرانی

 

سپریم کورٹ ہائیکورٹ کو حکم نہیں دے سکتی،ہم ہائیکورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے،ہم ہائیکورٹ میں زیر التوا اپیل کے معاملے پر نہیں آئینی معاملے پر فیصلہ کریں گے،آرٹیکل 63 ون جی میں پاکستان کی تباہی کرنے والے کی نااہلی پانچ سال ہے، آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پر نااہلی تین سال ہے، لوگ شادی کے وقت جن شرائط پر رشتہ دیتے ہیں وہ پوری نہ ہوں تو شادی ختم تو نہیں ہوتی، یہ مثال صرف سمجھانے کی غرض سے دی ہے، امین تو صرف ہم ایک ہی شخصیت کو کہتے ہیں باقی کوئی اس درجہ پر نہیں پہنچ سکتا، ہر شخص ہر وقت سچ تو نہیں بولتا، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے۔ پاکستان کی تباہی کرنے والے کو دوبارہ سیاست میں آنا ہی نہیں چاہیئے مگر اسکی نااہلی بھی پانچ سال ہے۔ آئین کی زبان کو دیکھنا ہوتا ہے ہر چیز آئین میں واضح درج نہیں۔ جو آئین میں واضح نہیں اس کی سپریم کورٹ تشریح کر سکتی ہے وضاحت نہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی دونوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ کی قانون سازی چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے دوسری جانب قانون، ریٹرننگ افسر کس پر انحصار کرے گا؟ انتخابات آگئے ہیں مگر کسی کو پتا نہیں کہ وہ الیکشن لڑے گا یا نہیں، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ

 

یہ بھی پڑھیں:

الیکشن 2024 ، کون کس کا ؟ تونسہ میں پروپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی

تونسہ شریف کا سیاسی منظرنامہ ، ایک تصویر جس نے پوری کہانی سنا دی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے