انسانیت کا سبق اور ہمارے تعلیمی ادارے
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
اگرچہ
ہم لوگوں نے سوشل میڈیا کا اندھا اور غلط استعمال ہی کیا ہے، جھوٹ کا بے دریغ
استعمال اور چیزوں کو گھما پھرا کے اپنے مطالب
دینا اور معنی پہنانا بہت ہی عام
ہے۔ مگر بعض اوقات بہت اچھی اچھی چیزیں
بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ آج ایک دوست کی فیس بک پوسٹ پڑھی جس میں انہوں
نے لکھا تھا " نیوٹن نے اگر گرے ہوئے سیب کی جگہ گرے ہوئے لوگ دیکھ لئے ہوتے
تو آج ہم Gravity کی بجائے Humanity یعنی
انسانیت پڑھ رہے ہوتے"۔ اگرچہ Gravity پڑھنا بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے لیکن زیادہ اہم Humanity یعنی
انسانیت پڑھنا ہے۔ جسے ہم نے یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔ بلکہ اگر میں اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لیکر یہ
کہوں کہ ہم نے انسانیت تو کیا سائنس و ٹیکنالوجی
حتیٰ کہ مذہب کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔ ہمارا معیار
تعلیم صرف اچھے مارکس لیکر اچھی نوکری کا حصول رہ گیا ہے۔
ہم
اپنے اصل علمی ہدف سے کیسے روگرداں ہوئے یہ ایک لمبی بحث ہے۔ لیکن چند بنیادی
باتیں جو شاید ہر کسی کی سمجھ آ جائیں ان پر بات کرتے ہیں۔جب ہم لوگ علم کے حصول
کیلئے اسکول یا مدرسے جایا کرتے تھے تو جو سب سے پہلی چیز ہمیں سکھائی جاتی تھی وہ
دوسروں کا ادب و احترام اور ان میں اٹھنے بیٹھنے کے طریقے سکھائے جاتے تھے۔ کسی کے
گھر یا محفل میں جانا ہو تو کیا کرنا ہے
اور اگر آپ کے گھر یا محفل میں کوئی آئے تو اس کی کیسے تکریم کرنی ہے۔ گھر میں
چھوٹوں اور بڑوں سے کیسے بات کرنے ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کیسے بیٹھنا ہے، کیسے کھڑا
ہونا ہے ، کیسے چلنا ہے اور کیسے سونا ہے۔ حتیٰ کہ تنہائی کے اداب بھی سکھائے جاتے
تھے۔ یعنی جب بھی کوئی طالب علم کچھ عرصہ گزار کے مدرسے یا اسکول سے نکلتا تھا تو
ایک بہترین انسان بن کے سامنے آتا تھا۔مگر پھر کیا ہوا کہ آہستہ آہستہ اساتذہ کی
توجہ ان سب چیزوں سے ہٹ کر صرف سلیبس تک محدود ہو گئی اور پھر سلیبس سے بھی محدود
ہو کر صرف چنیدہ موضوعات تک آ گئی کہ جس سے صرف طلبہ اچھے مارکس لے سکیں۔
یہ
باتیں بھی آج 10 ، 15 سال قبل کی ہیں جب صرف مارکس کیلئے پڑھا جاتا تھا ۔ اب تو جب
سے تعلیم میں کمرشل ازم نے طوفان بپا کیا ہے طلبہ میں بھی سلیکشن نے ڈیرے ڈال لئے
ہیں۔ اکثر تعلیمی ادارے خواہ وہ پرائیویٹ ہیں یا سرکاری سب ہی اس فارمولے پر
کاربند ہو گئے ہیں ۔ وہ فارمولہ ہے طالب علموں کی گروپ بندی، اس فارمولے کے تحت
داخلہ لینے والے طلبہ کو گروپوں میں تقسیم
کر دیا جاتا ہے ۔ اچھے طالب علموں کو توجہ
دے کر خوب تیاری کروائی جاتی ہے کہ ان طلبہ میں سے اگر ایک آدھ طالب علم کوئی
پوزیشن لینے میں کامیاب ہو گیا تو تعلیمی ادارے کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ جبکہ
باقی طلبہ تک سرسری سے نظر رکھی جاتی ہے کہ یہ بھی پاس ہو جائیں تو اچھا ہے ورنہ
والدین اور طالب علم کی قسمت۔ اب اس بھاگ
دوڑ میں اخلاقیات اور انسانیت کا درس کون دیتا پھرے ۔ یہ تو والدین کی ذمہ داری ہے
کہ وہ اپنے بچے کی عادات و خصائل کا خیال
رکھیں۔ بلکہ ایک بات اور اب تو اساتذہ اتنے ہوشیار ہو گئے ہیں کہ والدین کیلئے
باقاعدہ ہدایت لکھ کر بھیجتے ہیں کہ اپنے بچے کو یہ سبق پڑھا کر یا لکھا کر اسکول
بھیجیں ۔ آپ کا بچہ اس مضمون میں کمزور ہے اس پر توجہ دیں۔ یعنی اب تعلیمی ذمہ
داری بھی اساتذہ والدین کی طرف منتقل کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ
عرصہ تک یہ بھی کہہ دیا جائے کہ آپ ہمیں فیس بھیج دیا کریں بچے کو خود پڑھایا
کریں۔
اس
کے ساتھ ساتھ بعض تعلیمی ادارے اور اساتذہ اپنے سیاسی یا نظریاتی نقطہء نظر کو
بچوں میں منتقل کرنے کیلئے بھی تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ یہی بچے آگے چل کر ایک خاص
نظریہ کو پروموٹ کرتے نظر آتے ہیں جو کہ کسی صورت اچھا عمل نہیں ۔ اساتذہ کے پاس
بچوں کو تعلیمی مقاصد اور اچھا انسان بنانے کیلئے بھیجا جاتا ہے کسی کا ذہنی غلام
بنانے کیلئے نہیں۔ لیکن اب یہ اکثر دکھائی دیتا ہے کہ کچھ خاص تعلیمی ادارے کچھ عناصر یا تنظیموں سے پیسے لیکر
ان کی دی گئی لائن پر بچوں کو منظم کیا جاتا ہے انہیں اس نظریے پر سختی سے کاربند
رہنے کیلئے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ اساتذہ بھی اپنے سیاسی عزائم اور
خیالات کا کلاس رومز میں نہ صرف برملا اظہار کرتے ہیں بلکہ بچوں کی ذہن سازی کر کے
انہیں مائل کیا جاتا ہے۔ یعنی اب تعلیمی
اداروں اور اساتذہ کا کام تعلیم نہیں صرف نظریہ سازی اور کٹھ پتلیاں بنانا رہ گیا
ہے۔ تاکہ انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے۔
آخر
میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ہمارے معاشرے کی تنزلی تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا
اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام نہ دینا ہے۔ اساتذہ اور تعلیمی ادارے سب کچھ کر
رہے ہیں لیکن تعلیم نہیں دے رہےجو ان کا بنیادی کام ہے۔ اگر یہ ادارے اور اساتذہ
تعلیم دے رہے ہوتے تو Gravity اور Humanity کا طعنہ یوں سوشل میڈیا کی زینت
نہ بنتا بلکہ انسانیت سرفراز ہوتی خواہ Gravity پڑھی جا رہی ہوتی یا Humanity کا درس دیا جا رہا ہوتا ۔ پھر ہمیں کسی بھی
اچھے عمل کیلئے اہل مغرب کی مثال دینا نہ پڑتی اور نہ ہم دنیا میں یوں رسوا ہو رہے
ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں:
دانش
سکول تونسہ کب مکمل ہوگا۔ سیاسی ناخداؤ جواب
دو
ریاض قیصر قیصرانی کی سرائیکی شاعری پر مبنی تصنیف باکروال اور میرے جذبات
0 تبصرے