دانش سکول تونسہ کب مکمل ہوگا؟ سیاسی ناخداؤ جواب دو
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
دانش
سکول پنجاب حکومت کا بہت اچھا تعلیمی منصوبہ ہے۔ پنجاب حکومت نے پنجاب کے دیگر
علاقوں کی طرح تونسہ شریف میں بھی دانش سکول بنانے کا فیصلہ کیا تو دانش سکول
کیلئے وسیع رقبے کی ضرورت کے پیش نظر انتظامیہ نے رکھ کوٹ قیصرانی میں موجود
سرکاری اراضی کی نشاندہی کی۔ جس پر دانش سکول کیلئے او جی ڈی سی ایل روڈ شہلانی
چوک کے نزدیک تقریباََ 2600 کنال اراضی کا
انتخاب کر لیا گیا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 2017 میں دانش
سکول تونسہ شریف کا سنگ بنیاد رکھا۔ یوں
اس عظیم منصوبے کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ اس کے بعد 2018 میں الیکشن کے بعد ن لیگ
کی بساط لپیٹ دی گئی اور ساتھ ہی جاری تمام ترقیاتی منصوبوں کی طرح دانش سکول
تونسہ کی تعمیر کو بھی بریک لگ گئی۔ یوں ایک تیزی سے آگے بڑھتا ملک ایک بار پھر گہری
کھائی میں دھکیل دیا گیا۔ اہل تونسہ پر مایوسی کے بادل چھا گئے ۔ اس وقت تحصیل
تونسہ کی تقدیر بدل دینے والے دو اہم میگا پروجیکٹس پر کام جاری تھا اگر وہ منصوبے
مکمل ہو جاتے تو یہاں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جاتا۔
الیکشن
2018 کے بعد پی ٹی آئی نے تونسہ کی دھرتی کے ایک سپوت عثمان خان بزدار کو
وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کیا تو عوام کے مرجھائے چہرے ایک بار پھر کھل اٹھے کہ شاید
اللہ تعالیٰ نے ان کی سن لی ہے اور حکومت تبدیل ہو نے کے باوجود یہ میگاپروجیکٹس بند
نہیں ہوں گے اور مزید میگا پروجیکٹس بھی تونسہ کی عوام کو دیکھنا نصیب ہوں گے۔ پی
ٹی آئی کے امیدواروں نے اپنی الیکشن مہم میں بہت سے منصوبوں کے ساتھ ساتھ تونسہ کو
ضلع بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا تو عوام کی توقعات مزید ابھر کر سامنے آ گئیں کہ
وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد ضلع اور دیگر پروجیکٹس کی تکمیل اب زیادہ آسانی سے اور
جلد ممکن ہو سکے گی۔ مگر تقدیر نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہوا تھا وزارت اعلیٰ ملنے
کے بعد موصوف نے نہ صرف جاری پروجیکٹس کیلئے فنڈز کی فراہمی کیلئے تگ و دو کی اور
نہ ہی ضلع بنانے کی طرف پیشرفت کی۔ اس وقت تو صورتحال مزید تشویشناک ہو گئی جب
تونسہ کے دورہ کے موقع پر ایک تقریب میں وزیراعلیٰ کے قریبی ساتھی اور ان کی جیت
میں اہم کردار ادا کرنے والے ایم این اے خواجہ شیراز محمود نے سخت الفاظ کا استعمال
کرتے ہوئے ان سے تونسہ ضلع بنانے کا مطالبہ کیا بلکہ تب تک ان سے کنارہ کشی کا
اعلان بھی کر دیا کہ انہیں صرف ضلع تونسہ کا سٹیٹس چاہیئے وہ اور کوئی بات سننے کے
روادار نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ایم این اے خواجہ
شیراز کے بیچ رسہ کشی کے نئے دور کا آغاز بھی ہو گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے خواجہ شیراز محمود کے تمام
ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں۔ اگر ایسا کہوں کہ خواجہ شیراز
محمود حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن جیسے ستم جھیل رہے تھے تو بے جا نہ ہو گا۔
اسی
طرح ن لیگ کے دور میں شروع کئے گئے منصوبوں جیسے لیہ تونسہ پل اور دانش اسکول کی
تعمیر بھی کھٹائی میں پڑ گئی ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لیہ تونسہ پل 4 سال سے مکمل ہو
چکی ہے مگر دونوں اطراف سڑکیں نہ بنانے کے باعث ابھی تک یہ
پل عوام کے کسی کام نہیں آ سکی۔ اسی طرح دانش اسکول تونسہ شریف کے فنڈز بھی روک
دیئے گئے اور اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود
تحصیل تونسہ کے غریب بچے اس سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں۔ بلکہ ایک وقت میں تو دانش اسکول تونسہ کا
منصوبہ ختم کرنے کی بھی نوبت آ گئی جب بزدار حکومت نے دانش اسکول کی جگہ یونیورسٹی
بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔ حتیٰ کہ 2019 میں اس سازش پر عمل درآمد کرنے
کیلئے باقاعدہ کام بھی شروع کر دیا گیا مگر اہل علاقہ کی مزاحمت اور احتجاج پر
دانش اسکول کو یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ ترک کر دیا گیا مگر دانش اسکول بھی نہ
بننے دیا گیا۔ یوں 7 سال گزرنے باوجود
ابھی تک اہل تونسہ اس میگا پروجیکٹ سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔
اہل
تونسہ اپنے سیاسی نمائندگان سے یہ سوال کرنے حق بجانب ہیں کہ انہیں کس بات کی سزا
دی جا رہی ہے ۔ وہ انہیں مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں کیلئے منتخب کرتے ہیں اور
وہ منتخب ہونے کے بعد جاری ترقیاتی منصوبے بھی بند کروا دیتے ہیں۔ ایسا کیوں کیا
جاتا ہے حالانکہ ہم نے تو عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے پر مٹھائیاں تقسیم کی
تھیں اور ڈھول بھی بجائے تھے پھر ان سے ایسی کون سی خطا سرزد ہوئی کہ نہ خود کچھ کیا
اور نہ ن لیگ کی سابقہ حکومت کے منصوبوں کو مکمل کیا۔ حالانکہ ن لیگ کی حکومت نے یہ منصوبے تونسہ کے
لوگوں کیلئے بنائے تھے ۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ تونسہ ہی کے سیاسی نمائندے تونسہ
دشمنی پر اتر آئے۔ اب نئے الیکشن دستک دے رہے ہیں ، تونسہ کی عوام اپنے سیاسی
ناخداؤں سے سوال کر رہی ہے کہ دانش سکول کب مکمل ہو گا ؟
یہ بھی پڑھیں:
ریاض
قیصر قیصرانی کی سرائیکی شاعری پر مبنی تصنیف باکروال اور میرے جذبات
0 تبصرے