تونسہ شریف پسماندہ کیوں؟
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
تونسہ
شریف کا ہر حساس اور ذی شعور شخص مسائل کا انبار دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو
جاتا ہے کہ تونسہ شریف پسماندہ کیوں
ہے؟ یہاں کے لوگ غریب اور بے روزگار کیوں
ہیں؟ ذہن میں ان سوالات ابھرتے ہی بہت سے
جوابات بھی امڈ امڈ کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ ان جوابات کے بارے میں لکھنے سے قبل ایک شعر
سناتا چلوں
خدا نے
آج تک اس قوم کی حالت نہیں
بدلی
نہ
ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
تونسہ
شریف کی پسماندگی کے ویسے تو بہت سے اسباب ہیں
لیکن ان میں سے چند ایسے ہیں جنہیں بہت اہمیت حاصل ہے۔ جن میں سے پہلی اور
سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تونسہ شریف کے باسی خود ہی نہ تو تونسہ سے مخلص ہیں اور نہ
ہی اپنے آپ سے، یہاں کے لوگ ایک دوسرے کو
نیچا دکھانے کی دھن میں اس قدر گر جاتے ہیں کہ اپنا بھی نقصان کرنے میں کوئی پس و
پیش سے کام نہیں لیتے۔ یہاں کے لوگ نہ خود اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں اور نہ ہی
کسی کو بولنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ اس کی ٹانگیں کھینچنے اور اس پر طرح طرح کے
الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ وہ بھی بے چارا حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ میں
نے کونسا گناہ کر لیا ہے کہ سب انگلیاں ہی میری طرف اٹھ گئی ہیں اور سب لوگ مجھے
خاموش رہنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔
تونسہ
شریف ویسے تو یونان صغیر کہلاتا ہے ۔ علم یہاں کی پہچان ہے مگر عمل یہاں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ ہمارے
قول و فعل میں تضاد ابھر ابھر کے سامنے آتا ہے۔ ہم ایک پل میں ایسے گرگٹ کی طرح
بدلتے ہیں کہ گرگٹ بھی شرما جائے۔ تونسہ کے لوگ پوری دنیا میں بڑے بڑے عہدوں پر
موجود ہیں لیکن افسوس کہ وہ وہاں اکیلے ہی موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد واقعی
اکیلے ہو جاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ
وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نااہل
غیرمناسب لوگوں کو ان اداروں میں لے کر جائیں لیکن وہ اپنے علاقے کے لوگوں
کی ان عہدوں پر پہنچنے کیلئے مدد تو کر
سکتے ہیں ۔ انہیں راستہ تو دکھا سکتے ہیں کہ اگر یہ راستہ اختیار کریں گے اور یہ
مہارت حاصل کریں گے تو اس پوزیشن تک پہنچ سکتے ہیں۔ کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ٹیلنٹ
ہر انسان میں موجود ہوتا ہے فقط آپ کو راستہ دکھانے والا مل جائے تو منزل آسان ہو
جاتی ہے بصورت دیگر بھٹکنا کونسا مشکل ہے۔
یہاں
کے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ کر اپنے لوگوں کو تو بھولتے ہی ہیں اپنی مٹی کا قرض
چکانا بھی بھول جاتے ہیں۔ گذشتہ دور حکومت
میں تو یہاں کے عوامی نمائندے پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچے تو ایسا محسوس
ہوا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ہماری سن لی ہے اب ہماری 70 سالہ محرومیاں ختم ہو
جائیں گی۔ مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ
محرومیاں تو کیا ختم ہوں گی بہت سی اور
محرومیاں ہم پر مسلط ہو جائیں گی۔ مسائل کے مزید انبار لگ جائیں گے۔ میرا کہنے کا
مطلب یہ ہے کہ عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے سے جو خوش گمانیاں ہم نے پالی تھیں وہ ان کے وزارت چھوڑنے تک بدگمانیوں میں
تبدیل ہو چکی تھیں بلکہ بدحالی میں بدل چکی تھیں۔ جو منصوبے ن لیگ کے دور سے زیر
تعمیر تھے ان پر بھی فل سٹاپ لگ گئے اور اپنے منصوبے انہوں نے صرف کاغذوں میں
بنائے اور بہائے ، رہے نام مولا کا تونسہ کے باسی تو مزید گہرائیوں میں ڈوب گئے۔
عثمان
بزدار کے وزیراعلیٰ بنتے وقت تونسہ شریف
میں دو میگا پروجیکٹس پر کام زور شور سے جاری تھا۔ جو ان کے دور اقتدار میں آنے کے
بعد ٹھپ ہو کر رہ گئے اور آج تک مکمل نہ ہو پائے ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اہل
تونسہ کو دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ دانش سکول اور لیہ تونسہ پل جیسے میگا
پروجیکٹس کا تحفہ دیا تھا مگر ہمارے اپنے شہر کے وزیر اعلیٰ نے ان پروجیکٹس
کو نہ صرف کھو کھاتے ڈالا بلکہ مزید کوئی
میگا پروجیکٹ بھی نہ دیا حتیٰ کہ جو پروجیکٹس پائپ لائن میں تھے ان کی بازگشت بھی
اب سنائی نہیں دے رہی۔ اگر عثمان بزدار
کوئی نیا پروجیکٹ نہ بھی دیتے اور صرف انہی دو پروجیکٹس کو مکمل کرا جاتے تو یہاں
ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ۔ عوام کو روزگار کے نئے نئے مواقع میسر آتے۔
مگر شومئی قسمت ہمارا وزیراعلیٰ دریا پار کسی ایم پی اے جیسے کام بھی نہیں کر ا
سکا تو اسے کیا نام دوں؟ علاقے کے ساتھ اخلاص کا نام دوں یا علاقے کی پسماندگی کے نام پر وزیراعلیٰ بننے
والے کی بددیانتی کہ اسے وزیراعلیٰ بننے
کے بعد علاقہ یاد ہی نہیں رہا یاد رہیں تو صرف اپنی اور اپنے لانے والوں کی
تجوریاں ۔
اسی
طرح اپنے ایم این اے اور ایم پی اے ز کی جانب نظر دوڑائیں ، ان کی کارکردگی بھی آپ
کے سامنے ہے ۔ سوائے قل خوانیاں اور شادیاں بھگتانے کے اور کیا کیا ہے؟ کسی بھی
دکھ اور مصیبت کی گھڑی میں وہ آپ کے ساتھ نہیں رہے ۔ بارشیں آئیں یا طوفان ،
دریائے سندھ بپھر جائے یا رودکوہیاں سب کچھ بہا لے جانے پر تل جائیں ، کوئی بھی
سیاسی نمائندہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ آپ اکیلے لڑتے ہوئے جب اپنے بچے کچھے کے
ساتھ اپنوں کو دفنا کے فارغ ہو چکے ہوں گے تو یہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آئیں گے، تعزیت کے دو بول بولیں گے اور آپ لوگوں کا دل جیت کے لے جائیں گے اور اگلی
باری کے ووٹ بھی پکے کر لیں گے۔
مجھے
ایک واقعہ یاد آ رہا ہے شاید اس کا ذکر میں پہلے بھی کسی کالم میں کر چکا ہوں ۔ یہ واقعہ ہے ن لیگ کے دور حکومت کا، میں
تونسہ گیا ہوا تھا وہیں لیہ سے رکن صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر اعجاز احمد
اچلانہ سے ایک جاننے والے کے پاس ملاقات ہو گئی۔ وہ منگروٹھہ میں شاید کسی شادی پر
آئے ہوئے تھے۔ ان سے باتوں باتوں میں یہ
بات بھی ہوئی کہ ہم لوگ جب دریا پار کرتے ہیں تو دنیا ہی بدل جاتی ہے وہاں پر
ترقیاتی کاموں کا جال بچھا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں تو پسماندگی نے ڈیرے ڈالے ہوئے
ہیں تو ان کا یہ خوبصورت جواب تھا کہ سئیں ہم نہ تو سردار ہیں اور نہ گدی نشین کہ
لوگ ہمیں ووٹ دیں گے ۔ ہم جب اپنی الیکشن کمپین شروع کرتے ہیں تو ہمارے پاس صرف
اپنے گھر والوں کے ووٹ ہوتے ہیں ۔ ہمیں ایک ایک ووٹ اکٹھا کرنا پڑتا ہے اور ایسا
ہم اپنی کارکردگی اور لوگوں کے کام کروا کر ہی کر سکتے ہیں۔ جس ووٹر کا کام نہیں ہوتا تو وہ
ہمیں اگلی بار ووٹ نہیں دیتا اور پھر ہماری ہار یقینی ہوتی ہے۔ اس لیے سیاست کرنے
کیلئے ہمیں لوگوں کے کام کرنے پڑتے ہیں جبکہ آپ کے علاقے میں جب کوئی سردار یا گدی
نشین نکلتا ہے تو اس کی جیب میں20، 30 ہزار ووٹ ضرور ہوتے ہیں۔ یوں وہ اگر کام کرے
یا نہیں وہ اپنی جیت کیلئے کچھ نہ کچھ مزید ووٹ اکٹھے کر ہی لیتا ہے تو اسے کیا
ضرورت ہے کہ وہ لوگوں کے کاموں کیلئے اپنے آپ کو دفاتر میں خوار کرتا پھرے۔
اب
خود دیکھ لیں ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی چشمہ کینال ڈیڑھ سال سے بند پڑی ہے۔ چلتی
معیشت کا پہیہ رک چکا ہے۔ لوگ تیزی سے ابتری کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہمارا دانش سکول کا اہم منصوبہ 7 سال سے نامکمل
ہے۔ لیہ تونسہ پل منصوبہ 6 سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ ذرا بتلائیں تو اس عرصہ میں
آپ کے کسی عوامی لیڈر نے آواز اٹھائی ہو۔ کبھی کوئی بیان دیا ہو۔ کسی بااختیار اتھارٹی سے مل کر احتجاج کیا ہو
یا کم از کم عوام کے ساتھ مل کر ہی کوئی احتجاج کیا اور آواز اٹھائی ہو۔ سو کی ایک بات وہیں پر آ جاتی ہے کہ کبھی عوام
نے بھی احتجاج یا آواز اٹھائی ہو تو وہ بھی آواز اٹھائیں نا۔ خواہ مخواہ آپ ان سے
امید باندھ لیں کہ وہ آپ کے ووٹ کی لاج رکھیں گے تو یہ بات بالکل ہی عبث ہے کیونکہ
نہ ان کے آنے پر آپ ان سے یہ احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اس رویے پر آپ انہیں
ووٹ دینے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو پھر وہ کیوں اپنے آپ کو تمہاری خاطر خوار کرتے
پھریں۔ جب آپ خود اور اپنے بچوں کو تو
آلودہ پانی پلائیں اور سیاسی لیڈر کے آتے ہی منرل واٹر نکل آئے تو تب تک حالت نہیں
بدلے گی۔
اپنے
ساتھ مخلص ہو جائیں ، ان کے ساتھ مخلص ہو جائیں جو آپ کے ساتھ مخلص ہو، آپ کی خاطر
آواز اٹھانے والے ، آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے کا ساتھ دیں تو کوئی وجہ نہیں
کہ حالات نہ بدلیں۔ خود بھی آواز اٹھائیں اور دوسروں کی آواز میں
بھی آواز ملائیں۔ ماضی گزر چکا، حال اور
مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ اپنا حال سنواریں اور اپنے بچوں کو بہترین مستقبل دے
کر جائیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ محرومیاں وراثت میں چھوڑ کر نہیں جانا چاہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
لیہ
تونسہ پل منصوبہ، تاخیر کے خلاف احتجاج، بارش کا پہلا قطرہ
0 تبصرے