عثمان بزدار مسلم لیگ ن میں کب شامل ہو رہے ہیں، کیا ن لیگ انہیں قبول کرے گی؟

عثمان بزدار مسلم لیگ ن میں کب شامل ہو رہے ہیں، کیا ن لیگ انہیں قبول کرے گی؟


تونسہ شریف ( اردو ورلڈ پولیٹیکل ڈیسک) سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار  کے حوالے آئے روز سوشل میڈیا پر یہ ہوائیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ سردار عثمان بزدار بہت جلد مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کرنے جا رہے ہیں اور مسلم لیگ ن انہیں صوبائی حلقے یا قومی اسمبلی کے حلقے  کا ٹکٹ جاری کرے گی۔  ان افواہوں کی سردار عثمان بزدار کے قریبی ذرائع نے تصدیق یا تردید جاری نہیں کی۔

 

سردار عثمان خان بزدار جیسے کہ بہت سے دوست جانتے ہیں کہ وہ سردار فتح محمد خان بزدار فرزند ہیں۔  سردار فتح  محمد خان بزدار نے اپنی سیاست کا آغاز 80 کی دہائی میں کیا تھا۔ وہ مختلف اوقات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے  ٹکٹس پر الیکشن لڑتے اور کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ سردار فتح محمد خان بزدار کی بڑھتی عمر اور ضعیفی کے باعث ان کے فرزند سردار عثمان خان بزدار نے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیئے گئے۔ سردار عثمان بزدار کم و بیش 4 سال وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ وہ 9 مئی کے واقعات کے بعد کچھ عرصہ تو روپوش رہے اور پھر منظر عام پر آنے کے بعد بلوچستان سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی اور پی ٹی آئی سے راہیں جدا کر لیں۔  اس کے بعد سے وہ غیر متحرک ہیں اور ابھی تک انہوں نے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا۔

 

سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار چونکہ پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں اس کے صرف دو ہی ایسی جماعتیں رہ جاتی ہیں جو ان کی پناہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس وقت چونکہ مسلم لیگ ن طاقتور حلقوں کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی ہے اس لئے ہر سیاسی رہنما ن لیگ میں جانے اور مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کے حصول کیلئے تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔  اس وقت سردار عثمان بزدار سابق وزیر اعلیٰ کے طور پر ایک ہیوی ویٹ نام ہیں لیکن اگر مقامی طور پر سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو عملی سیاست میں ان کیلئے بہت سی مشکلات جنم لے چکی ہیں۔ نئی حلقہ بندی نےبھی ان کیلئے بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں ان کے حلقہ انتخاب کا بہت سا علاقہ جن میں ان کو گذشتہ الیکشن میں  کثرت سے ووٹ ملا تھا وہ دوسرے حلقے میں شامل ہو چکا ہے۔ اب اگر وہ حلقہ پی پی 285 سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو ان کے ووٹروں کی اکثریت والے علاقے اس حلقے میں سے نکل چکے ہیں اس لئے ان کے مشکلات بڑھ چکی ہیں۔ اور اگر پی پی 284 سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو سوائے انہی  2، 3 یونین کونسلز کے  دیگر یوسیز میں ان کا کوئی ووٹ بنک ہے ہی نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے دور وزارت اعلیٰ میں اس علاقے کے لوگوں سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہوئے یکسر نظرانداز کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ دوسرے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے منظور کروائے گئے منصوبوں میں بھی روڑے اٹکائے  اور ان منصوبوں کو شروع ہی نہیں ہونے دیا۔

 

اسی طرح اگر وہ ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کرتے ہیں تو مجھے ان کیلئے ن لیگ میں کوئی سکوپ نظر نہیں آتا کیونکہ ن لیگ کے پاس اس وقت بہت اچھے امیدوار موجود ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ سردار عثمان بزدار ن لیگ میں شامل ہونے جا رہے ہیں شاید یہ قرین قیاس نہیں ہے ۔ کیونکہ انہیں ن لیگ سے کسی حاصل وصول کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی ن لیگ کی قیادت انہیں ٹکٹ دینے کیلئے قبول کرے گی۔ ہاں البتہ وہ غیر مشروط طور پر ن لیگ میں شامل ہو جائیں اور اگلے بلدیاتی الیکشن میں کچھ اس کا ثمر لینا چاہیں تو ایسا ممکن ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس الیکشن میں ن لیگ کی طرف سے ان کیلئے کچھ ریوارڈ موجود نہیں ہے۔ ہاں البتہ وہ پی پی پی میں شامل ہو جائیں تو انہیں ٹکٹ مل سکتا ہے کیونکہ پی پی پی کے پاس یہاں کسی بھی حلقے میں ہیوی ویٹ امیدوار اب تک موجود نہیں  ہے۔

 

یہ تجزیہ ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی یہاں سے ایک ہیوی ویٹ امیدوار ہیں خواجہ شیراز محمود انہوں نے ابھی تک کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان نہیں کیا۔ جس دن بھی انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کیا ۔ گیم پوری واضح ہو جائے گی کہ کون کس جماعت سے اور کس پینل سے سامنے آ رہا ہے اور پھر اگلے الیکشن کے نتائج کے حوالے سے بھی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ جیت کا ہما کس کے سر بیٹھنے کی توقع ہے۔

 

تاہم ہمارے آج کے موضوع کے حوالے سے بات کریں تو مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے سردار عثمان بزدار کا ن لیگ میں مستقل نظر نہیں آ رہا ۔ ہاں البتہ سیاسی چونکہ ممکنات کا کھیل  ہے تو اس کھیل میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

دیکھے ہیں آدمی ۔  فاروق شہزاد ملکانی

سرداراکرم خان ملغانی کی پی پی پی میں شمولیت کا فیصلہ درست یا غلط

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے