بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے- نواز شریف ان، عمران خان آؤٹ
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
"بدلتا
ہے رنگ آسماں کیسے کیسے " یہ ایک ایسا ضرب مثل ہے جو ہمیشہ بدلتے حالات و
واقعات پر عمومی طور پر بولا اور لکھا جاتا ہے
اس لئے میں نے بھی یہ جڑ دیا ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جا رہے ہیں
کہ نوز شریف ان ہو گئے ہیں جبکہ عمران خان
آؤٹ ہو گئے ہیں بس رسمی کارووائیاں جاری ہیں۔ جو آئندہ دو ڈھائی ماہ میں سب کچھ انجام کو پہنچ جائے گا۔ لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ حالات کا جائزہ لینے سے
جو حتمی بات کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف ان ہوں یا نہیں ، عمران خان آؤٹ
ہیں۔ امپائر نے انگلی بھی اٹھا دی ہے بس
تھرڈ امپائر کے پاس اپیل ہے وہاں سے اشارہ
ہونے بعد یہ کنفرمیشن بھی ہو جائے گی کہ خان صاحب آپ آؤٹ ہیں پویلین کی راہ لیں۔ ویسے تو نواز شریف کا ان ہونا بھی تقریباََ حتمی
ہے لیکن اصل میں میاں نواز شریف کچھ انقلابی طبیعت رکھتے ہیں اگر پھر ان کا انقلاب
نکل آیا تو شاید منزل دور ہو جائے مگر ان کی پارٹی مسلم لیگ ن پھر بھی ان رہے گی۔ یہ
اور بات ہے کہ پھر نواز شریف کی جگہ شہباز شریف ہوں گے یا کوئی اور مگر ن لیگ سے
منہ موڑنا شاید اب ممکن نہ ہو گا۔
نواز
شریف کے ان ہونے کی نشانی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے کسی خاص مطالبے پر یوٹرن لے
لیا ہے یا خاموش ہو گئے ہیں جو انہوں نے کچھ روز قبل ہی واضح طور پر کیا تھا کہ
سابق آرمی چیف اور سابق آئی ایس آئی چیف اورکچھ سابقہ ایک موجودہ جج
پروجیکٹ عمران خان کے خالق تھے اس
لئے ان کے خلاف کارووائی عمل میں لائی جائے۔۔۔ اور پھر ایک اجلاس ہوا ، اعلامیہ
جاری ہوا کہ ہم ایسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ
آئندہ الیکشن میں اینٹی ایسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی بجائے اپنی کارکردگی 2013-2018 کی
بنیاد پر میدان الیکشن میں اترا جائے گا
اور کسی سابق یا موجودہ کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اب اسی واضح
ہوتا ہے کہ یہ یوٹرن کسی اشارے پر ہی ہوا ہو گا۔
مسلم
لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو واپس بھی آ رہے ہیں۔ اس کیلئے مسلم لیگ
ن نے بڑے پیمانے پر کمپین بھی شروع کر دی ہے۔ نواز شریف کے استقبال اور جلسے کیلئے
انتظامات اور لوگوں کو لانے کیلئے پارٹی اجلاس منعقد کئے جا رہے ہیں۔ سابق ارکان
اسمبلی، سینیٹرز اور پارٹی عہدیداران کو مختلف فرائض سونپے جا رہے ہیں۔ اب بہت سے
دوست ان کے آنے پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان کے
21 اکتوبر کو پاکستان آنے کے چانسز 99 ٪ ہیں۔ ایک ٪ مارجن صرف انہونی کو دے رہا
ہوں کیونکہ طاقتور حلقوں کے ساتھ کچھ ان بن ہو جاتی ہے یا جس طرح خدشہ ظاہر کیا جا
رہا ہے الیکشن کو کچھ ماہ مزید آگے کر دیا جائے یا غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر
دیا جائے تو ہو سکتا ہے نواز شریف کی آمد بھی ملتوی ہو جائے یا کچھ ماہ آگے بڑھ
جائے۔
باقی
رہا عمران خان کے آؤٹ ہونے کے چانسز تو یہ اب نوشتہء دیوار ہے۔ ایک بار وہ نااہل
ہو چکے ہیں مزید بار نااہل ہونے کیلئے بس کچھ روز یا ہفتے ہیں۔ سائفر کیس کی
کارووائی آج سے باقائدہ آگے بڑھنا شروع ہو جائے گی ۔ مزید 2 درجن سے زائد گواہان
ان کے خلاف پیش ہونے کو تیار ہیں۔ جس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں
عمران خان دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی بھی آؤٹ ہو جائے گی۔ اگر پی ٹی آئی پر
پابندی نہ بھی لگی مگر یہ تو طے ہے کہ پی ٹی
آئی میں نہ خان صاحب ہوں گے اور نہ ان کے قریبی عزیز ان کی جگہ لینے کو موجود ہوں
گے۔ یہ ہیں وہ خدشات جو موجدہ حالات کو
دیکھ کر میرے ذہن میں آ رہے ہیں۔ باقی رب کی رب ہی جانے
یہ بھی پڑھیں:
امجد فاروق کھوسہ کی تونسہ کی سیاست میں دوبارہ انٹری – کیا طوفان برپا ہو پائے گا؟
لیہ تونسہ پل پروجیکٹ ، عوام کی وزیر مواصلات شاہد اشرف تارڑ سے اپیل
0 تبصرے