دیکھے ہیں آدمی ۔ فاروق شہزاد ملکانی
دوسروں
کی خاطر مرتے بھی دیکھے ہیں آدمی
اوروں
کا خون پیتے بھی دیکھے ہیں آدمی
کہیں
محبتیں ہیں تو کہیں ظلم کے اندھیرے
کہیں
ہنستے تو کہیں روتے بھی دیکھے ہیں آدمی
اس فانی دنیا میں فقط
ایک خوشی کی
خاطر
دوسروں
کے ارمانوں کا خون کرتے بھی دیکھے ہیں آدمی
نہ کسی سے شکوہ ، نہ گلہ ، نہ شکایت ہے
یہاں
حق یتیموں کا کھاتے بھی دیکھے ہیں آدمی
ظاہر
میں چراغ جلانے
والے۔۔۔
باطن
میں چراغ بجھاتے بھی دیکھے ہیں آدمی
قانون
بے چارہ کیا کرے کہ طاقت کی آڑ میں
اس
کی دھجیاں اڑاتے بھی دیکھے ہیں آدمی
کبھی
یہاں ، کبھی وہاں، کبھی گھوڑوں کی لائن
میں
چند
پیسوں کی خاطر بکتے
بھی دیکھے ہیں آدمی
عجب
ہے کہ جاں نثاروں کے اس معاشرے میں
فقط
ایک نوالے پہ لڑتے بھی دیکھے ہیں آدمی
آدمی
مقتول، آدمی قاتل، آدمی ہی منصف ہے
لے
کر چار پیسے انصاف بیچتے بھی دیکھے ہیں
آدمی
غریب
نواز ، غریبوں کی خیر خواہی کی آڑ میں
مجبور
کی عزت نیلام کرتے بھی دیکھے ہیں آدمی
کیا
قیامت ہے کہ سفید ہو
گیا ہے لہو
بھائی
بھائی کا گلہ کاٹتے بھی
دیکھے ہیں آدمی
راشی اور مرتشی دوزخی ہیں پھر
بھی۔۔۔
دوزخ
کا ایندھن بڑھاتے
بھی دیکھے ہیں آدمی
حرص
و ہوس کی اس دنیا میں شہزاد
آدمی
کی خاطر جاں لڑاتے بھی دیکھے ہیں آدمی
کلام
: فاروق شہزاد ملکانی
یہ بھی پڑھیں:
یہ یونہی الزام دینا تم نے کس سے سیکھا ہے؟ ۔ شاعر –
فاروق شہزاد ملکانی
اپنے سرخ لبوں پہ میرا نام بھی لائے کوئی
– فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے