امیروں کے قبرستان میں غریب عوام مگر مچھوں کے حوالے
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
امیروں
کے قبرستان میں غریب عوام کو ایک بار پھر
مگرمچھوں کے حوالے کر دیا گیا ہےاور یہ طاقتور اور ظالم مگر مچھ نگلنے سے قبل چبا چبا کر اپنا نوالہ بنا رہے ہیں۔ غریب عوام
صرف اپنا خون بہانے کے علاوہ اور کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔
بعض
دوراندیش پاکستان کو امیروں کا قبرستان کہتے ہیں اور مین ان کے اس فلسفے سے 100 ٪
متفق ہوں کہ وطن عزیز کے امیروں کے قبرستان ہونے میں کوئی شک نہیں۔ آپ نے اکثر
دیکھا ہو گا جتنے بھی امیر اور بااختیار لوگ
ہیں وہ ملازمتیں اور حکومتیں یہاں کرتے ہیں۔ پیسہ پاکستان سے اینٹھتے ہیں۔ ( میں
نے یہاں اینٹھتے ہیں کی جگہ کماتے ہیں اس لئے نہیں لکھا کیوں کہ یہ بااختیار اور
ڈاڈھے لوک پیسے اینٹھتے ہیں کیونکہ کمانے والے اتنا نہیں کماتے جتنا یہ لوگ دولت
بناتے ہیں میں اس طرح کے خاص الفاظ آگے بھی استعمال کروں گا اب ان کو سمجھنا آپ کی
ذمہ داری ہے میں ہر لفظ کی تشریح نہیں کروں گا کچھ آپ بھی اپنی ذمہ داری ادا کریں)۔ یہ لوگ اختیار اور پیسہ آتے ہی سب سے پہلے اپنے
بچوں کو پڑھانے کے بہانے سے باہر کے ممالک میں شفٹ کرتے ہیں اور پھر اپنے پورے خاندان
کو اس ملک کا شہری بنا لیتے ہیں۔ پھر
آنجناب اکیلئے پاکستان سے پیسہ بناتے ہیں اور وہاں دیار غیر میں پورا خاندان نہ
صرف عیاشی کرتا ہے بلکہ جائیدادیں بھی بناتا ہے۔ ریٹائر ہو کے یا اپوزیشن میں جا
کر ان ممالک میں مزے کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی جان اللہ تعالیٰ کو دینے وقت قریب آتا
ہے تو پاکستان شفٹ ہو جاتے ہیں یا مرنے کے بعد دفن ہونے کیلئے پاکستان لے آئے جاتے
ہیں۔
اس
سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے ( ان میں ہر وہ فرد، افراد، خاندان یا عہدیدار
شامل ہیں جو 24 کروڑ افراد کے سروں پر سوار ہو کر اپنے احکامات کی فرمانبرداری
کرواتے ہیں اور ان کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔) کی اس ملک میں رہنے کا
مطمع نظر اصل میں ہے کیا سوائے اس کے کہ پیسہ بنانا ہے۔ ورنہ ایسا دنیا کے کسی ملک
میں کسی گھر میں ایسا نہیں ہوتا کہ جہاں رہنا ہو وہاں کے حالات ایسے بنا دیئے
جائیں کہ وہ انسانوں کیلئے جہنم بن جائے۔ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو جائیں۔ کھانے کے ایک
نوالے کو ترس جائیں۔ جبکہ اسی گھر یا ملک میں رہنے ولے چند افراد کے پاس پیسہ ہی
پیسہ ہو انہیں خود بھی اپنی دولت کا اندازہ نہیں ہوتا کہ کتنی ہے یعنی وہ اپنی
دولت کو شمار میں بھی نہیں لا سکتے۔ ایسا معاشرہ نہ تو اچھا ہوتا ہے نہ رہنے کے
قابل صرف ان پر حکمرانی کی جا سکتی ہے اس لئے وہ یہاں پر حکمرانی کرتے ہیں اور لوٹ
کھسوٹ کے اپنے حقیقی گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
اسی
طرح ہمیشہ جمہوری معاشروں میں عوام کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ عوام کے مسائل کم
کرنے اور انہیں سہولیات بہم پہنچانے کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی
آمریت یا ون مین شو مسلط ہوتا ہے وہ عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کیلئے بلند بانگ
دعوے کرتا ہے اپنے دعوؤں میں سب اچھا ہے یا سب اچھا ہو جانے کی نوید سناتا ہے۔
لٹیروں اور قومی سرمایا کھانے والوں کو شکنجے میں لانے کیلئے اقدامات کا ڈھنڈھورا
پیٹتا ہے اور پھر غریب اور بےبس عوام کو
باندھ کے اسی نوکرشاہی کے سامنے پھینک دیتا ہے جو پہلے ہی ان کا خون چوسنے والوں
شامل ہوتا ہے۔ اور پھر یوں ہوتا ہے کہ اب خون چوسنے کے ساتھ ساتھ خون نچوڑنا بھی
شامل ہو جاتا ہے۔ جیسے آجکل ہو رہاہے۔
واپڈا کی ہی مثال لے لیں بظاہر تو یہ کہا
جا رہا ہے کہ واپڈا ڈسکوز بااثر نادہندگان
اور بچلی چوروں کے خلاف کارووائی کر رہے ہیں مگر ایسا سوائے چند مثالوں کے اور کچھ
نہیں ہو رہا جبکہ عام صارف پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اپنی کارکردگی شو
کرنے کیلئے معصوم لوگوں پر بجلی چوری کی ایف آئی آرز کرائی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی
غریب لوگوں کو بھاری بل بھیج دیتے ہیں
تاکہ جیسے ہی یہ لوگ بل دینے کے قابل نہ ہوں تو انہیں نادہندگان بنا کر اس کیٹیگری
میں بھی اپنی کارکردگی شو کر دی جائے۔
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بجلی چوری کی 90 ٪ وارداتوں میں یہی واپڈا ملازمیں
شامل ہوتے ہیں ۔ یہ خود بجلی چوری کرتے ہیں ، اپنے عزیز و اقارب کو بجلی چوری
کرواتے ہیں اور ساتھ دوسرے لوگوں سے بجلی چوری کروا کے اس کے بدلے رشوت وصول کرتے
ہیں۔ غریب عوام بے بس ہو کر لٹتے رہتے ہیں
یا خودکشیاں کرتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
اسی
طرح دیگر اداروں میں بھی یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔ یہاں بھی عام آدمی کو باندھ کے
طاقتوروں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے اور اصلاح احوال کے بھیس میں صرف کارکردگی شو
کی جاتی ہے لیکن پستا صرف غریب آدمی ہی ہے۔
آجکل
بھی بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے ۔ غریب آدمی بلک رہا ہے سسک رہا ہے ، اپنی آہ و بکا
سنانے کیلئے تڑپ رہا ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے۔ یعنی امیروں
کے قبرستان میں غریبوں کو مگرمچھوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
سردار
امجد فاروق کھوسہ این اے 183 سے الیکشن میں حصہ لیں گا یا نہیں ، پیر بشیر جعفر کی وضاحت
کچھ تو ہمارا بھی لگتا ہے خدا آخر – تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے