سردار اکرم خان ملغانی کی پی پی پی میں شمولیت کا فیصلہ درست یا غلط
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
جیسا
کہ سب کو معلوم ہو گا کہ چیف آف نوتک سردار اکرم خان ملغانی نے ساتھیوں کے ہمراہ پی پی پی میں باقاعدہ شمولیت
کا اعلان کر دیا ہے۔ اس موقع پر ان کے فرزند سردار اعظم خان ملغانی، جنرل سیکرٹری
تونسہ بار حمادخان ملغانی و دیگر بھی موجود تھے۔ سردار اکرم خان ملغانی نے اپنے
پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے فیصلے کا
اعلان ڈیرہ غازیخان میں کھوسہ ہاؤس میں سردار دوست محمد کھوسہ اور پیپلز پارٹی کی
مقامی لیڈرشپ کی موجودگی میں کیا۔ ان کا پی پی پی میں شمولیت کا فیصلہ درست ہے یا
غلط ، اس پر سیاسی حلقوں میں بحث زور شور سے شروع ہو چکی ہے۔ ہر سیاسی جگادری اپنی
رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ کچھ کی رائے میں انکا یہ فیصلہ درست اور بروقت اور کچھ کو ان کا یہ فیصلہ قبل از وقت اور درست
نظر نہیں آ رہا۔ ہر دوست کی رائے مقدم ہے لیکن ہر کسی کا ان کی رائے سے متفق ہونا
بھی ضروری نہیں۔ اس مضمون میں جو میں اپنے رائے پیش کروں گا وہ بھی میری ہی رائے
ہو گی کسی کا اس رائے اور نقطہء نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سردار
اکرم خان ملغانی ایک تجربہ کار اور سینئر سیاستدان ہیں۔ انہوں نے اپنے سیاسی
کیریئر میں بہت سردو گرم کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف پارلیمانی سیاست میں
براہ راست حصہ لیا ہے بلکہ بنیادی سیاست یعنی بلدیاتی سیاست میں بھی خود اور ان کے
خاندان کے دیگر افراد نے حصہ لیا ہے۔ وہ خود وائس چیئرمین ضلع کونسل رہے ہیں ،
متعدد بار یونین کونسل کے ناظم اور چیئرمین بھی رہ چکے ہیں ۔ ان کے فرزندان بھی
یونین کونسل کے چیئرمین رہ چکےہیں۔ تونسہ شہر سے جنوبی علاقہ ان کی سیاسی ریاست
میں شامل ہے۔ متعدد یونین کونسلز میں وہ براہ راست اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ کئی یونین
کونسلز میں ان کے خاندان کے افراد براہ راست الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور کامیابی
سے ہمکنار رہتے ہیں۔ جبکہ دیگر یونین کونسلز میں بھی اپنے گروپ کے امیدواروں کی
جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ متعدد
بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن انفرادی طور پر لڑ چکے ہیں اور قابل قدر ووٹ حاصل
کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اوپر میں نے ایک فقرے میں ان کی سیاسی ریاست کا لفظ
استعمال کیا ہے اسے شاید کچھ دوست سمجھ پائے ہوں یا کچھ دوست اس کا استعمال زیب داستان کیلئے سمجھ رہے ہوں تو اس کی وضاحت
کرتا چلوں کہ سردار اکرم خان ملغانی تحصیل تونسہ کے چند ان سیاستدانوں میں شمار
ہوتے ہیں جن کے ووٹر ان کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے
ووٹروں کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ ان کے پاس کسی مقبول سیاسی جماعت کا ٹکٹ ہے یا نہیں
، وہ جیت کی پوزیشن میں ہیں یا سامنے والا امیدوار زیادہ مضبوط ہے بس انہوں نے ووٹ
دینا ہے تو سردار اکرم خان ملغانی کو دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سردار اکرم خان
ملغانی کا ووٹ ہر بار پچھلے الیکشن سے زیادہ ہوتا ہے ۔
گزشتہ
الیکشن میں اس بات سے قطعہ نظر کہ ہر طرف پی ٹی آئی کو طوطی بول رہا تھا۔ طاقت کے
تمام مراکز پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کر رہے تھے اس کے باوجود سردار اکرم
خان ملغانی نے تن تنہا الیکشن میں حصہ لے کر 17 ہزار سے زائد ووٹ لے لئے۔ سیاسی
پنڈت ان کی اس کارکردگی سے نہ صرف حیران تھے بلکہ ان کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو
دیکھ کر مستقبل کیلئے اچھا آپشن قرار دے رہے تھے۔ سردار اکرم خان ملغانی کی گذشتہ
روز پی پی پی میں شمولیت سے کسی اور کو حیرت ہوئی یا نہیں لیکن صحافت اور سیاست کے
ایک ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے مجھے ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں ان کے اس موقع پر پیپلز
پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ قبل از وقت ہے ۔ یہ کسی اور کیلئے تو اپنی کارکردگی شو
کرانے کا باعث تو ہو سکتا ہے مگر ان کیلئے زیادہ سود مند نہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ
میرا ایسا نقطہء نظر کیوں ہے تو اس کا سادہ سا
جواب تو نہیں لیکن اتنا مشکل بھی نہیں۔ میرے اس نقطہ ء نظر کی ایک وجہ تو
یہ ہے ابھی تک الیکشن کا بروقت انعقاد یقینی نہیں ۔ دوسرے اگر سردار اکرم خان ملغانی سے کوئی طاقتور
کھلاڑی میدان میں آ گیا اور اس کا پیپلز پارٹی کی قیادت سے مک مکا ہو گیا تو پھر
شاید سردار اکرم خان ملغانی کو سبکی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ تیسرے عین وقت پر جب
پارٹیوں کو امیدواروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ زیادہ بہتر ڈیل کے ساتھ اپنا کھیل انجام
دے سکتے تھے۔ اس کے علاوہ میرا نقطہ ء نظر
ایک اور طرح سے بھی ہے وہ یہ کہ اگر اس وقت ہی پیپلز پارٹی میں جانا ضروری تھا تو
ڈیرہ غازیخان جا کے پارٹی میں شمولیت کا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہیں چاہئے
تھا کہ سوکڑ ، تونسہ یا اپنے حلقے میں کسی بھی جگہ جلسے کا انعقاد کر کے یہ اعلان
کرتے۔ اس سے ایک تو یہ ہوتا کہ لوگوں میں یہ تااثر جاتا کہ پارٹی نے انہیں مضبوط
امیدوار جان کر رابطہ کیا اور ان کے پاس چل کر آئے اور دوسرا فائدہ یہ پہنچتا کہ کامیاب جلسہ کر
کے ایک ٹیمپو بنا لیتے جو کسی بھی اچھے امیدوار کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
اسی
طرح اگر سردار اکرم خان ملغانی کچھ روز اور انتظار کر لیتے تو کچھ اچھے آپشنز بھی
میسر آ سکتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے سپورٹرز کے ساتھ معذرت کے ساتھ یہ عرض بھی کرنا
چاہتا ہوں کہ پی پی پی میں شمولیت سے سردار اکرم خان ملغانی کو تو شاید فائدہ نہ
پہنچے لیکن پی پی پی کو فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے کیونکہ تحصیل تونسہ میں پی پی پی
کا ووٹ نہ ہونے کے برابر ہے جو تھوڑا بہت بچا بھی ہے تو وہ بھی سوائے عہدے رکھنے
کے پارٹی سے زیادہ مخلص نہیں۔ وہ خود
الیکشن کے دنوں میں کسی کو ووٹ دینے کیلئے
امیدوار کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ چند مخلص کارکن جو واقعی چاہتے ہیں کہ پی پی پی کا
ایک بار پھر عروج ہو وہ بے چارے پچھلی بنچوں پر بیٹھ کر صرف نعرے لگانے کیلئے رہ
جاتے ہیں نہ تو انہیں کوئی عہدہ دیا جاتا ہے اور نہ اہمیت کے قابل گردانا جاتا ہے۔
مضمون
کے آخر میں اگر سردار اکرم خان ملغانی کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے فیصلے کے بارے
میں دوٹوک الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے پوسٹ مارٹم کروں تو میرے خیال میں ان کا یہ
فیصلہ خاص طور پر اس وقت بالکل بھی درست نہیں ۔ ہاں البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ فیصلہ ان کیلئے
نقصان دہ بھی نہیں ۔ باقی سیاست ایک بہت
وسیع میدان ہے ہو سکتا ہے آگے چل کر ان کا یہ فیصلہ ان کیلئے سود مند ثابت ہو جائے
تو یہ ان کی خوش بختی ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں:
پیپلز
پارٹی کی تونسہ میں اہم کامیابی، بااثر شخصیت نے شمولیت اختیار کر لی
0 تبصرے