اللہ کرے ایسی قیامت پھر نہ آئے۔آمین

اللہ کرے ایسی قیامت پھر نہ آئے۔آمین تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

اللہ کرے ایسی قیامت پھر نہ آئے۔آمین

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی 

 

پاکستان میں آئے 2005 کے زلزلے کو 18 برس بیت گئے۔ اب بھی جب اس زلزلے کی یاد آتی ہے تو منہ یہ دعا ضرور نکلتی ہے کہ اللہ کرے ایسی قیامت پھر نہ آئے۔ آمین

 

جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہو گا کہ 8 اکتوبر 2005 کی صبح پاکستان  میں قیامت خیز زلزلے نے تباہی مچا دی تھی۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ 2005 میں ہمارے قصبے ریتڑہ میں یوفون کے ٹاورز تو انسٹال ہو چکے تھے مگر ابھی سروس شروع نہیں ہو پائی تھی۔ ریتڑہ اور گردونواح میں لیہ سے یوفون کے سگنلز کچھ مخصوص جگہوں پر موصول ہوتے تھے۔ میری شاپ میں بھی یہ سگنلز آ جاتے تھے تو فائدہ یہ ہوتا تھا کہ میسجز کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی موبائل پر کال بھی موصول ہو جاتی تھی۔ چونکہ ریتڑہ میں یوفون کا ٹاور چلنے والا تھا تو بہت سے لوگوں نے موبائل اور یوفون کی سمیں خریدنا شروع کر دی تھیں۔ میں نے بھی موبائل اور سمیں بیچنا شروع کر دی تھیں۔ ایک کسٹمر کو سم بیچ کر اس کے موبائل میں ڈالی تو اس وقت سگنل شاید کچھ زیادہ ویک تھے اس صورت میں دکان کے گیٹ یا اس سے باہر تک جا کر کھڑا ہونا پڑتا تھا  میں جیسے ہی باہر نکلا تو زوردار جھٹکوں نے لڑکھڑا دیا۔ دیگر کسٹمرز بھی یہ جھٹکے محسوس کر کے فوری طور پر باہر آگئے اور توبہ استغفار کرنے لگے۔ پھر کافی دیر تک وقفے وقفے سے آفٹر شاکس بھی محسوس ہوتے رہے۔  یہ جھٹکے اتنے شدید تھے کہ سب کچھ جھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔  پھر کچھ دن مزید کمروں کے اندر جاتے ہوئے ڈر لگتا رہا۔

 

چونکہ 2005 میں ابھی سوشل میڈیا نہیں آیا تھا اور اگر کوئی سوشل میڈیا سائٹ تھی بھی تو ہمارے علاقے میں انٹرنیٹ نہ ہونے کے باعث ان کا استعمال بالکل نہ تھا۔ کچھ مین سٹریم نیوز چینل تھے جن کی وصاطت سے تقریباََ ایک گھنٹہ بعد اس زلزلے میں ہونے والی تباہی و بربادی کی خبریں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ یہ تفصیلات ایسی تھیں کہ اللہ امان، یہ خبریں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ سب سے پہلے تو جو خبر موصول ہوئی وہ اسلام آباد سے تھی جہاں مارگلہ ٹاورز کی ایک قدآور رہائشی بلڈنگ زمین بوس ہو چکی تھی۔ جس میں ہزاروں لوگوں کے ملبے تلے دبے ہونے کی خبر آئی۔ اسی طرح لاہور کی ایک آدھ عمارت اور پھر کشمیر اور شمالی علاقہ جات سے آنے والی خبروں نے تو قیامت ڈھا دی  ایسے لگتا تھا جیسے کوئی قیامت صغریٰ گزر گئی ہو۔

 

8 اکتوبر 2005 کے زلزلے میں خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے اور آزاد کشمیر  بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اس قیامت خیز زلزلے نے 30 لاکھ افراد کو بے گھر اور 89 ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔  اس زلزلے کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق 12000 سے زائد طلبہ اور 1600 کے قریب اساتذہ سکولوں اور کالجوں کی عمارات گرنے کے باعث زندہ دوگور ہو گئے تھے۔ 5 لاکھ سے زائد گھر ، سینکڑوں کلومیٹر سڑکیں، پل اورذرائع مواصلات تنا ہی و بربادی کا نوحہ سنا رہے تھے۔ اس زلزلے میں خوبصورت شہر بالا کوٹ جو دریائے کنہار کے کنارے آباد ہے مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔  سرکاری و غیر سرکاری ادارے بڑے پیمانے پر تباہی کے باعث مفلوج ہو گئے تھے۔

 

یہ تو تھی 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی مختصر سی کہانی جو شاید بہت سوں کے ذہن سے محو ہو چکی ہو ۔ بہت سے قارئین اس وقت شاید بہت چھوٹے ہوں یا ابھی پیدا بھی نہ ہوئے ہوں ۔ اس لئے انہیں یہ تلخ حقیقت یاد دلانے کیلئے دہرا دی ہے کیونکہ زندہ قومیں ہمیشہ دکھ درد اور مصائب کی ان گھڑیوں کو یاد کر کے آئندہ کیلئے اپنے لئے خوبصورت راہیں تراشتے ہیں اور اس طرح کی آفتوں سے بہتر انداز میں نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر بنا کے رکھتے ہیں۔  مگر شومئی قسمت پاکستان کے ڈنگ ٹپاؤ سسٹم کے باعث ہم نہ کامیابی سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ تباہی و بربادی ہمیں سیدھے راہ پر لا پاتی ہے۔ اس طرح کی آفات سے نمٹنے کیلئے بڑے بڑے ناموں والے ادارے تو کھڑے کر دیئے مگر نہ تو سٹرکچر بنایا اور نہ ہی کوئی فزیکل کاوش کی ہم اب بھی 2005 کے مقام پر کھڑے ہیں، اب بھی اگر کوئی آفت آتی ہے تو ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات نے بڑے برے سانحات کی شکل اختیار کر لی۔

 

اس ڈنگ ٹپاؤ سسٹم کی وجہ آخر ہے کیا؟ میری دانست میں تو اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہماری آزادی کو  76 سال گزرنے کے باوجود ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارا گورننگ سسٹم کیا ہونا چاہئے۔ کبھی آمریت، کبھی جمہوریت تو کبھی صدارتی نظام کا ڈھول پیٹا جاتا ہے مگر کسی بھی سسٹم کومسلسل 15، 20 سال چلنے نہیں دیا گیا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتی تو نظر آتی ہے لیکن جب اسی جمہوریت کو کوئی آمر آ کر تلپٹ کر دیتا ہے تو پھر یہی عوام آمر زندہ باد کے نعرے لگاتی ہے اور مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے۔ جمہوری رہنما بھی اپنی اپنی پسند کی آمریت کو سپورٹ کرتے ہیں اور آنے والا ہر آمر بھی اپنی اپنی پسند کے لیڈر تراش کر جماعتیں کھڑی کر دیتا ہے اور اپنی نگرانی میں الیکشن کروا کر حکومتیں لے آتا ہے۔ وہ بھی موقع جان کر موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور آمر سمیت اپنی بھی نسلیں سنوارتے ہیں۔ کیونکہ ان کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب تک یہ آمر ہے تو ہم ہیں یہ چلا گیا تو ہمیں کس نے پوچھنا ہے۔  

 

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آمریت کے دلدادہ اور آمریت کی فیکٹریوں نے کبھی حقیقی جمہوری لیڈر بننے بھی نہیں دیا۔ کوئی بھی عوامی لیڈر اس وقت تک لیڈر بن ہی نہیں سکتا جب تک اسے حقیقی طاقتور حلقوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ یہ طاقت کے پروڈکشن ہاؤسز لیڈر بناتے ہیں انہیں استعمال کرتے ہیں اور پھر جب وہ لیڈر ان کی قدوں سے اونچا ہونے لگتا ہے تو اسے نکال باہر کیا جاتا ہے جس طرح اس کا قد بڑھانے کیلئے کہانیاں گھڑی جاتی ہیں ، فلمی کہانیوں کی طرح سین کری ایٹ کئے جاتے ہیں اسی طرح اس کو منہ کے بل گرانے کیلئے کوئی نہ کوئی فلمی کہانی بنا بھی لی جاتی ہے۔  تجربے پر تجربہ جاری ہے اور ڈنگ ٹپاؤ پروگرام بھی اپنے عروج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایٹمی ملک ٹکے ٹکے کو ترس رہا ہے عوام خودکشیاں کر رہی ہے اور حکمران چین کی بانسریاں بجا رہے ہیں۔ نہ عوام کو اپنی فکر ہے اور نہ حکمرانوں کو عوام کی۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

 

یہ بھی پڑھیں:

امیروں کے قبرستان میں غریب عوام مگر مچھوں کے حوالے

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے- نواز شریف ان، عمران خان آؤٹ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے