تونسہ
ضلع کریڈٹ کس کا - Taunsa
Zila
تحریر:
فاروق شہزاد ملکانی
الیکشن
کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کی تفصیلات جاری کر دی گئی ہیں۔ جن
کے مطابق تونسہ کو ضلع قرار دے کر حلقہ بندی کی گئی ہے۔ ان حلقہ بندیوں کے مطابق
تونسہ ضلع ( Taunsa Zila)
کیلئے ایک قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 183 (NA-183) اور 2 پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی
284 (PP-284) تونسہ –1 (Taunsa-1) اور پی پی 285 (
PP-285) تونسہ – 2 (Taunsa-2)بنائے گئے ہیں۔ جس کے بعد جو تونسہ ضلع ( Taunsa Zila) کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار
کیا جا رہا تھا کہ آیا تونسہ ضلع بن بھی
پائے گا کہ نہیں۔
اب
آتے ہیں اس بات کی جانب کہ تونسہ ضلع کا کریڈٹ کس کا ہو گا؟ سوشل میڈیا کی اگر بات کریں تو وہاں ایسا لگتا
ہے کہ آدھا تونسہ شریف اور ایک چوتھائی پاکستان بلکہ کچھ بیرون ملک رہنے والے دوست
بھی تونسہ ضلع کا کریڈٹ لینے کے اہل ہیں۔ لیکن ہم آئیں گے کچھ حقائق کی جانب اور کریں گے بات وہ جوحقیقت سے زیادہ قریں ہو اور لوگ بھی مانیں کہ
واقعی تونسہ ضلع ( Taunsa Zila) بنوانے میں اس صاحب یا ان صاحبان کا
اہم رول ہے۔
پنجاب
اسمبلی کو اپنے ہاتھوں سے توڑنے سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ سابق ایم این اے خواجہ شیراز محمود اور دیگر کی ایک
تصویر وائرل ہوئی تھی۔ جس میں پرویز الٰہی خواجہ شیراز محمود کو تونسہ ضلع کا نوٹیفیکیشن
دے رہے تھے۔ اگر اس بات کی تصدیق کی جائے
تو یہ حقیقت ہے کہ یہی وہ حتمی نوٹیفیکیشن
تھا جو تونسہ کو ضلع بنانے کیلئے جاری کیا گیا تھا۔ تو یہیں پر رک کر کچھ دوست کہیں گے کہ پس ثابت
ہوا کہ تونسہ ضلع بنانے میں سارا کریڈٹ سابق ایم این اے خواجہ شیراز محمود کو جاتا
ہے۔ تو ایسا نہیں ہے بھائی ، اس سے یہ
ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ تونسہ ضلع بنانے کا سارا کریڈٹ خواجہ شیراز محمود کو جاتا
ہے۔ تو آئیے ہم کچھ مزید حقائق کا جائزہ
بھی لیتے ہیں۔
آپ
دوستوں کو یاد ہو گا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنے آخری ایام
میں بھی کچھ اقدامات کئے تھے کہ تونسہ کو ضلع کا درجہ دیا جائے۔ لیکن عثمان بزدار اس میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے کیونکہ ہر کام کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے ایسا
نہیں ہوتا کہ بٹن دبائے اور ضلع روشن ہو جائے
اس لئے کہ ضلع بجلی کا بلب نہیں ہوتا کہ روشن ہو جائے ۔ ضلع بنانے کیلئے
پورا ایک پراسیس ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہتے تو ابتدائی 6 ماہ میں ہی تونسہ ضلع ( Taunsa Zila) بنوا کر اسے ہر طرح سے مستحکم کر
سکتے تھے۔ اب تک تونسہ میں تمام ضلعی دفاتر بن چکے ہوتے اور تمام افسران عملے سمیت
پہنچ کر کام شروع کر چکے ہوتے۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ عثمان بزدار کا مقصد تونسہ
ضلع کا صرف کریڈٹ لینا تھا ضلع بنوا کر لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہرگز نہیں تھا۔ وہ
صرف اپنی وزارت اعلیٰ کے آخری ایام میں تونسہ ضلع کا نوٹیفیکیشن کروا کر صرف ڈھول
بجوانا چاہتے تھے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے عثمان بزدار کو موقع ہی نہیں دیا کہ وہ عوام کو یوں بے وقوف بنا
پائیں یا کریڈٹ لے پائیں۔ اب وہ تونسہ کی سیاست کے سب سے زیادہ تہی دست
سیاستدان ہیں جو آئندہ الیکشن میں خالی ہاتھ جائیں گے۔ ا ن کے کریڈٹ پر صرف باتیں
اور لارے ہی رہ گئے ہیں ۔ ہاں البتہ ان کے
پاس اب پیسہ بہت ہے اور وہ لوگوں کے ضمیر خریدنے کی کوشش کریں۔
اب
آتے ہیں سابق ایم پی اے خواجہ محمد داؤد سلیمانی کی تونسہ ضلع ( Taunsa Zila) کے حوالے
سے کوششوں پر تو اگر ایسا کہا جائے کہ وہ شاید خود بھی تونسہ ضلع کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ان کی کوششیں پورے
دور اقتدار میں کسی نے نہیں دیکھیں اور نہ انہوں نے جتلانے کی کوشش کی ہے۔ وہ صرف
لوگوں کو مطعون کرنے اور پھر ہیلی کاپٹر کے جھولے لینے تک ہی محدود رہے۔ بلکہ اب
تو وہ لوگوں کی ہمدردیاں لینے کے قابل بھی نہیں کہ وہ اپنے ووٹروں کو کہہ سکیں کہ
عثمان بزدار نے ان کے کام نہیں کئے یا نہیں ہونے دیئے کیونکہ وہ آخری دو سال عثمان
بزدار کے انتہائی قریب رہے اور ان کے نام کی مالا جپتے رہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے
کہ عثمان بزدار نے انہیں اپنے دور اقتدار میں خوش کئے رکھا۔ یہ خوشی حلقے کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے تھی
یا ذاتی مفادات کے گرد گھومتی تھی یہ الگ بحث ہے۔
ان
تینوں عوامی نمائندوں کی کارکردگی اور تونسہ ضلع کے حوالے سے کوششوں پر مبنی کچھ
حقائق تھے۔ جن کے بعد ہم یہ پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ شیراز محمود
تونسہ کو ضلع قرار دلوانے ، اس کے حتمی نوٹیفیکیشن جاری کروانے اور بعد ازاں
الیکشن کمیشن کی جانب سے روکے جانے اور پھر ضلع مانے جانے کے پیچھے ان کی کافی
کوششیں شامل ہیں۔ اس لئے وہ تونسہ ضلع ( Taunsa Zila) بنوانے کے ہیرو ہیں۔ اس لئے یہ کریڈٹ لینے کے صحیح معنوں میں حقدار ہیں۔ تونسہ ضلع پر دوٹوک فیصلہ نہ کرنے پر اس وقت کے
وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے جھگڑا مول لینا ان کی سب سے بڑی قربانی تھی جس سے ثابت
ہوتا ہے کہ وہ تونسہ ضلع بنوانے میں مخلص تھے اور کسی صورت اس پر کمپرومائز کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اگر وہ
چاہتے تو وہ 4 سال تک نجی محفلوں میں تونسہ ضلع کا نعرہ بھی لگاتے رہتے اور عثمان
بزدار کے ساتھ رہ کر کروڑوں کے مفادات بھی سمیٹ لیتے۔ لیکن انہوں نے تونسہ ضلع پر
کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اسی طرح بعد ازاں پرویز الٰہی کی حکومت میں
اپنے تعلقات کا استعمال کر کے تونسہ ضلع کا حتمی نوٹیفیکیشن جاری کروایا اور اس کے بعد آنے والی رکاوٹوں پر نہ صرف
عدالت سے رجوع کیا بلکہ اپنے تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے تمام رکاوٹیں دور
کروائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم تونسہ کو
ضلع کہہ رہے ہیں اور الیکشن کمیشن بھی اس کو مان رہا ہے۔
یہ
سب کریڈٹ خواجہ شیراز محمود کا بجا سہی لیکن اس تونسہ ضلع تحریک کے بانی کو اگر
بھول جائیں تو یہ بھی قرین انصاف نہ ہو
گا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ یہ مشرف
دور میں پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کا دور تھا اور پرویز الٰہی تونسہ کے دورہ پر
آئے تھے۔ ان کے سامنے تونسہ ضلع ( Taunsa Zila) کا مطالبہ
رکھا گیا تھا۔ لیکن وہ تونسہ کی عوام کو ٹرخا کر واپس لاہور کی راہ پر ہو لئے تھے۔
اس موقع پر چودھری پرویز الٰہی کے سامنے احتجاج کرنے والے سردار میر بادشاہ
قیصرانی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز الٰہی
تونسہ ضلع کا اعلان کرنے والے تھے مگر ڈیرہ غازیخان کے ایک بااثر سیاستدان جو اب
اس دنیا میں نہیں رہے نے پرویز مشرف کو کہہ کر پرویز الٰہی کو یہ اعلان کرنے سے
روک دیا تھا۔ تاہم سردار میربادشاہ قیصرانی
بھی یہ شمع جلانے کے کریڈٹ کے حقدار ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ ان کے مطالبے کو حقیقت کا روپ دینے میں خواجہ شیراز محمود
سب پر بازی لے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
بیٹ
مورجھنگی کے مسائل - مکین پتھر کے زمانے میں
رہنے پر مجبور- تحریر۔ فاروق شہزاد ملکانی
کچھ تو ہمارا بھی لگتا ہے خدا آخر – تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے