لیہ تونسہ پل پروجیکٹ ، عوام کی وزیر مواصلات شاہد اشرف تارڑ سے اپیل
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
لیہ
تونسہ پل پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہے۔ لیہ تونسہ پل پروجیکٹ جیسا کہ سب لوگ جانتے
ہوں گے کہ ن لیگ کے سابق دور اقتدار میں 2017 میں شروع کیا گیا تھا۔ جس کا سنگ
بنیاد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے رکھا تھا۔ جس پر کام شروع ہوا اور 2019 کے
آخر یا 2020 کی ابتداء تک پل تو مکمل ہو
گئی مگر دونوں اطرف اپروچ روڈز اور حفاظتی بندوں کی تعمیر شروع نہ کی جا سکی۔ آخر
کار خدا خدا کر کے جون 2021 میں کے این کے کنسٹرکشن کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا۔
ٹھیکہ ملنے کے بعد اب تک تقریباََ ڈھائی سال میں صرف 10 فیصد کام مکمل ہو پایا ہے۔
عوام ارباب اختیار سے اپیلیں کر کر کے تھک چکی ہے مگر نہ تو ٹھیکیدار اور نہ ہی این ایچ اے کے حکام کے کانوں پر جوں تک رینگی
ہے۔ حتیٰ کہ وزارت مواصلات نے بھی کوئی دلچسپی دکھائی ہے۔
دونوں
اطراف کے عوام نے اپنے دستخطوں کے ساتھ ایک بار پھر ارباب اختیار خصوصاََ وزیرمواصلات
شاہد اشرف تارڑ سے اپیل کی ہے کہ وہ خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیہ تونسہ
پل پروجیکٹ کی تکمیل کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
ان کی درخواست کے الفاظ و عبارت کچھ یوں ہے۔
"
بخدمت جناب عزت مآب شاہد اشرف تارڑ صاحب منسٹر مواصلات پاک سیکرٹریٹ اسلام آباد
جناب
عالی!
گذارش
ہے کہ ہم غریب لوگ دریائے انڈس جو تحصیل تونسہ اور ضلع لیہ کے درمیان سے گزرتا ہے
دونوں کناروں پر آباد ہیں اور ہماری آبادی لاکھوں میں ہے۔ انڈس ہائی وے N-55 سے لیہ کوٹ روڈ کا درمیانی فاصلہ
بذریعہ پل 23 کلومیٹر اور N-55
سے via
ہیڈ تونسہ لیہ کا فاصلہ 160 کلومیٹر ہے۔ اس
فاصلے کو کم کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے دریائے انڈس پر لیہ کے مقام پر ایک پل کا
منصوبہ دیا جو فروری 2018 میں شروع ہوا اور فروری 2020 میں 4 ارب روپے کی مالیت
سےمکمل ہوا ۔ لیکن بدقسمتی سے لیہ سائیڈ
اور تونسہ سائیڈ کی اپروچ روڈز کا کام شروع نہ ہوا۔ پل مکمل ہونے کے ایک سال بعد
جون 2021 میں میسرز KNK نامی کمپنی کو ایوارڈ ہوا۔
حضور
والا! عرصہ 2 سال گزرنےکے باوجود صرف 10٪ کام ہوا ہے۔ جس کا لوکل آبادی کو ابھی تک
ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ پل دریا کے درمیان میں بنا ہوا ہے دونوں سائیڈوں
پر پانی چل رہا ہے اور یہ غریب لوگ کشتیاں استعمال کر کے اپنے فصلات اور مال مویشی
کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا رہے ہیں۔ سیلاب آنے کی صورت میں اپروچ روڈ
نہ ہونے کی وجہ سے اپنی فصلات اور مویشی شہر تک نہیں لے جا سکتے اور اکثر و بیشتر
ہماری فصلات و مال مویشی ڈوب جاتے ہیں۔
یہ
کچہ علاقہ ہے گنے کی کاشت بہت زیادہ ہوتی ہے اور لیہ شوگر مل کا فاصلہ 8 سے 10
کلومیٹر ہے۔ پل کے دونوں اطراف پانی بہنے کی وجہ سے ہم اپنا گنا بھی مل تک نہیں لے
جا سکتے۔ جس سے غریب کسانوں کا لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔
حضور
والا! یہ تیسرا سیزن پانی کا گزر رہا ہے لیکن ابھی تک پانی پل کے نیچے Divert نہیں کیا گیا ۔ میسرز KNK اتنی مظبوط کمپنی ہے کہ وہ نیشنل ہائی وے کے
افسران کی کوئی بات نہیں سنتی کام ابھی تک بند ہے۔ یا پھر افیسران انکے ساتھ ملے
ہوئے ہیں اور صرف کلیم بناتے جا رہے ہیں۔ مالی سال 2023-2024 میں بھی تقریباََ سوا 2 ارب
روپے اس پروجیکٹ کیلئے مختص کئے گئے ہیں۔
کنٹریکٹر
نے مارچ 2023 میں کام نہ کرنے کا نوٹس بھی نیشنل ہائی وے کو دیا ہوا ہے اس کے
باوجود این ایچ اے نے جون 2023 میں کمپنی کو پیمنٹ بھی کر دی ہے۔ حضور والا! ہم
غریب لوگوں کی عرضی ہے کہ اگر یہ Approach
Road نہیں بنانی تھیں تو عوام
کے ٹیکس سے 4 ارب روپے سے یہ پل تعمیر کیوں کیا گیا جو کہ عرصہ 4 سال سے بھوت
بنگلہ بنا ہوا ہے۔ جس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے ہماری اس عرضی کو مدنظر رکھتے
ہوئے آپ سے التماس ہے کہ اس کی تحقیق کی جائے کہ یہ کام تاخیر کا شکار کیوں ہے اور
اس کا کون ذمہ دار ہے ۔ کیونکہ KNK
کمپنی کے مالک مسٹر شجاعت خان کے بارے میں مشہور
ہے کہ اس نے جہاں پر بھی کام کیا ہے عرصہ 08 سے 10 سال پہلے کام ختم نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ نے عزت مآب کو اتنا بڑا عہدہ دیا ہوا ہے اس کی مخلصانہ تحقیقات کریں اور غریب عوام کی داد رسی کرکے ہماری اس مشکل سے جان چھڑائی جائے ۔ اللہ تعالیٰ عزت مآب کو اسکا اجر عظیم عطا فرمائے گا.
عرضے
بذریعہ الیاس احمد قیصرانی لیہ اینڈ تونسہ "
اس
درخواست کے ساتھ لف دیگر صفحات پر متعدد دیگر افراد کے نام ، شناختی کارڈ نمبر اور
موبائل نمبر دستخطوں کے ساتھ موجود ہیں۔
0 تبصرے