کچھ تو ہمارا بھی لگتا ہے خدا آخر – تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
اپنوں
کے بچھڑنے کا غم اور ان کی یادیں اکثر شہر خاموشاں کھینچ لاتی ہیں۔ حسب معمول جمعہ
نماز کے بعد قبرستان جانا ہوا۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ یوں یہ خامشی دیکھ کرحقیقی طور پر ادراک بھی ہوا
کہ انسانوں کی آخری منزل قبرستان کو شہر خاموشاں کیوں کہتے ہیں۔ بارشوں کا موسم ہے
اور قبروں پر جھاڑجھنڈکار اور کثرت سے اگنے والی جنگلی جڑی بوٹیوں نے قبضہ کر رکھا
تھا۔ ان میں سے کچھ قبروں کو صاف کر کے کانٹے دار جھاڑیوں سے صاف کر دیا گیا تھا
مگر بہت سی قبریں دیکھ کر ایسا لگا جیسے ان قبروں میں آرام کرنے والوں کا کوئی
قریبی شاید بہت دنوں سے نہیں آ پایا۔ اس دوران قبرستان آنے والے ایک دوست نے ایک
ایسی قبر کی نشاندہی کی جس میں ایک ایسی خاتون آرام پذیر تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ
نے کوئی اولاد نصیب نہیں کی تھی مگر ان کی قبر جھاڑیوں سے ایسے صاف نظر آ رہی تھی
جیسے روزانہ کوئی آ کے ان کی قبر کی صفائی کرتا ہو، ساتھ ہی انہوں نے ایک اور قبر
کی نشاندہی بھی کی جس پر جھاڑجھنڈکار نے
مکمل قبضہ کر رکھا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے برسوں سے ان کے کسی اپنے نے چکر
لگانا گوارا نہ کیا ہو حالانکہ وہ شخصیت اپنے پیچھے بھرا پرا اور خوشحال گھرانا
چھوڑ کے گئی ہیں۔
اس
واقعے کا ذکرمیں نے یہاں کیوں کیا ہے اس بارے میں آپ کو آگے چل کر بتاؤں گا، بتاؤں
گا کیا مجھے یقین ہے کہ آپ خود سمجھ جائیں گے کہ میں آپ کو کیا سمجھانا چاہتا تھا
کیونکہ کچھ لفظ، کچھ جملے ، کچھ لہجے، کچھ واقعات، کچھ تصاویر وغیرہ کچھ نہ کہہ کر
بھی بہت کچھ کہہ جاتی ہیں اور آپ بیتی یا جگ بیتی کا پورا منظر کھول کر رکھ دیتی
ہیں۔ جنہیں سمجھنا اگرچہ ہر انسان کے بس کی بات تو شاید نہ ہو لیکن بہت سے لوگ
اتنے حساس ہوتے ہیں کہ بہت کچھ جان لیتے ہیں۔
پاکستان
کو بنے 76 سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ لیکن دشمنوں کی کارستانیوں اور اپنوں کی ریشہ
دوانیوں نے اہل پاکستان کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ ہمیشہ سے ہی اس ملک کو
توڑنے اور ختم کرنے کی سازشیں پروان چڑھتی رہیں ۔ یہ سازشیں کامیاب بھی ہوئیں اور
ہمارا ایک بازو ہم سے الگ ہو کربنگلہ دیش بھی بن گیا۔ لیکن ستمگر کے ستم کم ہونے
کا نام نہیں لے رہےاور نہ اپنوں کی مکاریاں تھمنے کا نام لے رہی ہیں۔ ہربار ایک
نئے سوراخ سے ڈسوانے اور پھر ایک اور ٹرک کی بتی کا پیچھا کرنے کا کام پوری
ایمانداری سے نہ صرف خود کرتے ہیں بلکہ تمام لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کا بیڑا بھی
اٹھا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک ہمیں حقیقی پیار نہیں ملا اور نہ پیار کرنے والا
لیڈر ہے مل پایا ہے۔ ہماری کم وقتی یاداشت ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہم ہر آنے
والے کیلئے ڈھول بھی پیٹتے ہیں اور ہر جانے والے کو گالیوں سے بھی نوازتے ہیں۔ پھر
اگلی بار آنے والے کیلئے جب ہم ڈھول اٹھاتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ کچھ عرصہ
قبل ہی ہم نے اس کے جانے پر اسے گالیاں دی تھیں اور مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ ہم تو بھول جاتے ہیں مگر آنے والا نہیں بھولتا
کہ کن لوگوں کو رگڑا لگانا ہے اور کن لوگوں کو نوازنا ہے۔ لیکن شومئی قسمت تختہ ء
مشق بننے والوں اور نوازے جانے والوں کی ترتیب ہر بار ایک ہی رہتی ہے خواہ جانے
والا اور آنے والا کوئی بھی ہو رگڑا ہمیشہ عام آدمی کواور نوازشیں خواص کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔
کچھ
روز قبل عرصہ بعد ایک دوست سے ملاقات ہوئی وہ میرا کلاس فیلو تو نہیں تھا مگر ہم
ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اور شاید وہ کچھ
کلاسز مجھ سے پیچھے تھا۔ اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھ زمین تھی جس
پر کاشت کر کے اس کے والدین اور وہ اچھی گزر بسر کرتے تھے۔ انٹر کے بعد وہ بھی
اپنے والدین کے ساتھ کاشتکاری میں لگ گیا اور زمین کو کھود کر اپنا رزق تلاش کرنے
لگا۔ سات آٹھ سال قبل جب اس ملاقات ہوئی تھی تو بہت خوش تھا کہ چشمہ نہر کے آنے
بعد اسے بھاگ لگ گئے تھے۔ زمینیں سونا اگل رہی تھیں۔ مجھے اس سے وہ ملاقات اچھی
طرح سے یاد ہے جب اس نے بتایا تھا کہ بھائی اللہ کا فضل ہے میں نے اپنا گھر پکا کر
لیا ہے اور 125 بھی خرید لیا ہے۔ بس اگلے سال تک ٹریکٹر بھی خریدلوں گا ۔ پھر ایسا
کیا ہوا کہ آج میں اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا اور سچی بات ہے میں اس کا نام
یاد کرنے کوشش کے باوجود زبان پر نہیں لا پا رہا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ میری
یاداشت کا مسئلہ تھا یا اس کے نین نقش اتنے دھندلا گئے تھے کہ میری یاداشت اس کی
صورت کو لیکر کوئی جامع رزلٹ فراہم نہیں کر رہی تھی۔ آخر اس سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کیا ہوا طبعیت
ٹھیک رہتی ہے کہ پہچانے ہی نہیں جا رہے۔ اس کے جواب سے دل میں درد کی ٹیس اٹھی مگر
کیا کیا جا سکتا تھا اس کی کہانی ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے۔
اس
نے بتایا " چونکہ میں خود زیادہ نہیں پڑھ پایا تھا اس لئے اس کا خواب تھا کہ
وہ اپنے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائے گااور انہیں بڑا آدمی بنائے گا۔اس کیلئے اس
نے بہت مٹی کھودی اور ایک موقع پر تو ایسا لگنے لگا تھا کہ شاید میں اپنی کوشش میں
کامیاب بھی ہو جاؤں گا۔ میرے 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔ میں محنت کرتا رہا اور اپنے
تمام بچوں کو وقت آنے پر مقامی اسکول بھجواتا رہا ۔ جب تک بچے چھوٹے تھے اور
مہنگائی بھی زیادہ نہیں تھی تب تک میں نے گھر بھی بنا لیا، موٹر سائیکل بھی خرید
لیا ۔ ٹریکٹر خریدنے کے بارے میں سوچ
رہاتھا کہ اندھا دھند مہنگائی نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ بچے جوان ہو چکے تھے کچھ
کالج ، کچھ ہائی اسکول اور کچھ پرائمری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ میں چونکہ اپنے کاشتہ
رقبے پر رہائش پذیر ہوں اسے لئے بچوں کو سکول لانے لیجانے کیلئے دو موٹر سائیکل
اور لینا پڑے ۔ کیونکہ وہاں سے انڈس ہائی وے 6 سات کلومیٹر دور ہے کالج جانے والے
بچے موٹر سائیکل پر تونسہ کالج جاتے ہیں اور کچھ بچے خود موٹرسائیکل پر ریتڑہ
اسکول آ جاتےہیں اور کچھ کو میں خود اسکول چھوڑ جاتا ہوں۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا
گزارا ہو رہا تھا۔ پھر رہی سہی کسر چشمہ نہر کی بندش اور ظالمانہ مہنگائی نے پوری
کر دی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہیں میرا خواب بکھر نہ جائے ۔ سوچ رہا ہوں کہ کچھ بچوں
کو پڑھائی سے نکال کر کام پر لگا دوں کہ اخراجات پورے ہو سکیں نہیں تو رقبہ بیچنے
کی نوبت آ جائے گی، میں صرف 8 ایکڑکا زمیندار ہوںوہ بھی اگر بیچ دیئے تو کھاؤں گا
کہاں سے اور پھر بچےتعلیم سے الگ محروم رہیں گے ۔
وہ
تو چلا گیا مگر مجھے عجیب سی خیالوں کی دنیا میں چھوڑ گیا کہ ہم پاکستانیوں کا
مقدر ایسا کیوں ہے ، ہم اکیسویں صدی میں
بھی پتھر کے دور میں کیوں رہ رہے ہیں۔ ہم دعوے تو بڑے بڑے کرتے ہیں مگر وقت
آنے پر اپنے پیشروؤں سے بھی گئے گزرے ثابت ہوتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے
اشرافیہ اور عام آدمی میں تفریق بڑھتی جا رہی ہے(حالانکہ دیگر ممالک میں یہ فرق کم
ہوتا جا رہا ہے)۔ غریب ، غریب تر اور امیر ، امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ دیگر ممالک
میں لوگ معلومات کے اس دور میں مذہب ، سماجیات ، عمرانیات اور معاشیات کو بہتر
انداز میں سجھنا شروع ہو گئے ہیں مگر پاکستان میں جاہلیت اپنے عروج پر پہنچ رہی
ہے۔ ہم نے ہر چیز کو پیسے سے جوڑ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر بااختیار پیسہ بنانا
اپنا فرض سمجھتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس
کی کوئی حد بھی نہیں ہے۔ یہاں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جنہیں اپنی حقیقی دولت اور
جائیداد کا معلوم ہی نہیں کہ کہاں کہاں ہے، شہر کے شہر، جزیریوں کے جزیرے خرید رکھے ہیں ،
بنک اور خفیہ اسٹور ناجائز دولت سے بھرے پڑے ہیں پھر بھی ہوس ایسی کہ پیٹ کا دوزخ
بھرنے کا نام نہیں لے رہا ۔ دولت سمیٹنے کا ہر جائز ناجائز طریقہ نہیں چھوڑا جاتا ۔
بھاش ایسے کہ بات بات پر اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیتے نہیں تھکتے۔ ہاتھوں میں
تسبیح پکڑ کر اس کی نمائش کرنا فرض سمجھتے ہیں
اور جھوٹ پر جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ جس اللہ کا نام لیکر لوگوں کو
بے وقوف بنا رہے ہیں اس اللہ کو منہ بھی دکھانا ہے کیونکہ ہر ذی روح نے موت کا
ذائقہ چکھنا ہے اور اپنے وقت پر چکھنا ہے ۔ پھر یہی ہو گا کہ پیچھے قبرپر فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ہو گا اور اکٹھی
کی گئی دولت نہ معلوم کس کے کام آئے یا وہ بھی زمین برد ہو جائے ۔
پاکستان
کی عام عوام صرف امید پر زندہ ہے کہ شاید کوئی بہتر انسان اس دھرتی پر بھی جنم لے
لے جو واقعی اللہ تعالیٰ کو اپنا خدا اور رسول ﷺ کو اپنا رہبر مانتا ہو ۔ عام پاکستانی ہر وقت بس یہی کہتا رہتا ہے کہ
امیرِ
شہر تو جتنی بھی کوشش کرلے
کچھ
تو ہمارا بھی لگتا ہے خُدا آخر..!!
یہ بھی پڑھیں:
دیار
غیر میں جب مسافر نے اپنوں کو تلاشا۔۔۔ شاعر۔ فاروق شہزاد ملکانی
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ظالمانہ یا منصفانہ... تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے