بیٹ مورجھنگی کے مسائل - مکین پتھر کے زمانے میں رہنے پر مجبور- تحریر۔ فاروق شہزاد ملکانی

بیٹ مورجھنگی  کے مسائل - مکین پتھر کے زمانے میں رہنے پر مجبور- تحریر۔ فاروق شہزاد ملکانی

بیٹ مورجھنگی  کے مسائل - مکین پتھر کے زمانے میں رہنے پر مجبور

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

بیٹ مورجھنگی کے مسائل - مکین اکیسویں صدی میں بھی پتھر کے زمانے میں رہنے پر مجبور ہیں۔ غریب عوام بے بسی کی تصویر بنے ہر آنیوالے کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنی داستان غم سنا کر دل کے پھپھولے جلاتے رہتے ہیں۔  عوامی نمائندوں اور انتظامیہ نے ہمیشہ لولی پاپ دے کر ٹرخا دیا۔  آئیے آج بیٹ مورجھنگی کے مکینوں کی کہانی ان کی اپنی زبانی آپ کو سناتے ہیں۔

 

کچھ روز قبل حسب معمول " اردو ورلڈ " ( Urdu World ) کی ایڈیٹنگ میں مصروف تھا کہ ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی۔ اسے اٹینڈ کرنے پر کال والے نے بتایا کہ وہ غلام اکبر منڈیرہ  بیٹ مورجھنگی سے بات کر رہے ہیں۔ وہ مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں وہ میرے آرٹیکلز اخبارات اور سوشل میڈیا پر پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے تھوڑا سا اپنے علاقے  بیٹ مورجھنگی کی محرومیوں کے بارے میں بتایا اور اپنے ڈیرے پر آنے اور ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ میں عمومی طور پر ایسی دعوتوں پر بہت کم جاتا ہوں لیکن اس دعوت سے قبل جو انہوں نے اپنے علاقے کے مسائل کے بارے میں سرسری سا بتایا تو پھر میں  بھائی اکبر منڈیرہ کو منع نہ کر پایا اور یاس و امید کے لہجے میں جواب دیا کہ کوشش کرتا ہوں کہ آپ کی جانب آ جاؤں ۔  چونکہ ایک صحافی کا کام خبر کو لوگوں تک پہنچانا اور ان کے مسائل اجاگر کرنا ہوتا ہے تو دل میں ہی عہد کر لیا کہ اگر دعوت پر نہ بھی جا سکا تو بہت جلد کسی روز ان کے علاقے کا چکر لگاؤں گا اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کر کے زیرقلم ضرور لاؤں گا۔

 

اکبر منڈیرہ نے ریتڑہ کے دیگر صحافی بھائیوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ اس لئے گذشتہ اتوار صحافیوں نعمت اللہ ملکانی نامہ نگار روزنامہ خبریں ملتان، محمد اسماعیل قیصرانی روزنامہ 92 نیوز کے ہمراہ بیٹ مورجھنگی روانہ ہوئے۔ راستے میں دریائے سندھ تک پختہ روڈ تو بنی ہوئی تھی مگر آنے جانے والی ٹریکٹر ٹرالیوں نے روڈ کو مٹی کا انبار بنا چھوڑا تھا۔ ہر جانب دھول و مٹی کے غبار اٹھ رہے تھے۔ یہ سب طوفان دیکھ کر ہم دوستوں نے ایک دوسرے سے ازراہ  تفنن طبع پوچھ ہی لیا کہ شناختی کارڈ ساتھ ہے کہ نہیں کیونکہ میزبان کے پاس پہنچیں تو کہیں وہ ہماری حالت دیکھ کر ہمیں پہچاننے سے ہی انکار نہ کر دیں۔  سڑک سے اتر کر جیسے ہی کچے راستے پر اترے تو پھر اور ہی سماں تھا۔ ہر طرف گردوغبار کے بادلوں نے گھیر لیا کہ ساتھ ٹریکٹر ٹرالی گزرنے پر کچھ وقت تو سب کچھ گردوغبار میں ہی چھپ جاتا تھا۔ تاہم اللہ اللہ کر کے اکبر منڈیرہ کے ڈیرے پر پہنچے جہاں ایک درجن سے زائد افراد ہمارے منتظر تھے۔ وہاں پر محمد شاہین ملکانی ای این این نیوز اور بابر گیلانی ( صدقے تھیواں فیس بک پیج ) سے ملاقات بھی ہوئی جو ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچے ہوئے تھے۔

 

بیٹ مورجھنگی  کہاں واقع ہے؟

بیٹ مورجھنگی ریتڑہ سے تقریباََ 10 کلومیٹر دور قصبہ مورجھنگی کے مشرق میں دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔  ریتڑہ سے  بیٹ مورجھنگی جانے کیلئے  پہلے ڈیو چوک اس کے بعد مورجھنگی اور اس کے بعد مورجھنگی کے شمال میں واقع دریائے سندھ پر واقع پر کو کراس کرنے کے بعد مختلف بل کھاتے راستوں سے ہوتے ہوئے بیٹ مورجھنگی تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پتی والا کے راستے بھی یہاں تک رسائی ممکن ہے۔

 

بیٹ مورجھنگی کی آبادی

آئیے اب آتے ہیں اپنے اصل ٹاپک کی جانب ، ہمارے میزبان غلام اکبر منڈیرہ اور ان کے بیلی سعید احمد نے ہمیں کھل کر اپنے مسائل کے بارے میں بتایا۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں کے مصداق مسائل اور دکھوں کی ایک لمبی داستان تھی جسے میں ذرا اختصار کے ساتھ آپ لوگوں کے گوش گزار کروں گا۔ غلام اکبر منڈیرہ اور سعید احمد نے بتایا کہ بیٹ مورجھنگی میں تازہ ترین مردم و خانہ شماری کے مطابق تین سو کے قریب گھر اور دو  ہزار سے زائد نفوس رہائش پذیر  ہیں۔ یہاں کے اب تک کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد سات سو سے زائد ہے۔

 

بیٹ مورجھنگی کے مسائل

1۔ صحت کے مسائل

بیٹ مورجھنگی کے واسیوں کے مطابق یہاں پر صحت کے حوالے سے کوئی سہولت میسر نہیں ۔ دریا کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے یہاں کے شہریوں کو صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یہاں پر قدرتی امراض کے ساتھ ساتھ حادثاتی انجریز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ چونکہ کہ علاقہ زرعی وسائل پر انحصار کرتا ہے اس لئے لوگ زراعت کے ساتھ ساتھ گزر بسر کیلئے مویشی بھی پالتے ہیں۔ مویشیوں کو چارا کھلانے کیلئے ٹوکہ مشین کا استعمال کرتے ہوئے آئے روز لوگوں کے ہاتھ ٹوکہ مشین میں آکر زخمی ہو جاتے ہیں۔ اس ایمرجنسی میں کوئی ایسی سہولت بھی نہیں کہ زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دی جا سکتے ۔ یوں زخمیوں کو 10 کلومیٹر دور موٹرسائیکل پر لے جانے سے ان کا بہت سا خون بہہ جاتا ہے جس کے باعث مریض کی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

 

2۔ مویشی ہسپتال کا قیام

بیٹ مورجھنگی میں ہزاروں کی تعداد میں پالتو مویشی موجود ہیں لیکن ان کے صحت کی دیکھ بھال کیلئے کوئی ہسپتال یا ڈسپنسری موجود نہیں۔ آئے روز مویشیوں کے بیمار ہونے کی وجہ سے مویشی پال حضرات دور سے ویٹرنری ڈاکٹر کو لیکر آتے ہیں جس کے باعث چھوٹی سی بیماری پر بھی اچھا خاصا خرچہ اٹھ جاتا ہے۔  اسی طرح ہر کچھ عرصہ بعد متعدی بیماریوں کے پھیلنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں مویشی اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور مویشی پال حضرات کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پرتا ہے۔

 

3۔ تعلیمی مسائل

بیٹ مورجھنگی میں بچوں کی تعلیم کیلئے بوائز پرائمری سکول تو موجود ہے لیکن بچیوں کی تعلیم کیلئے کوئی ادارہ موجود نہ ہے۔ جس کے باعث یہاں کے بچوں کی بڑی تعداد زیور علم سے محروم رہ جاتی ہے۔ یہاں پر کم از کم بوائز مڈل سکو ل اور بچیوں کیلئے پرائمری سکول کا قیام از حد ضروری ہے۔

 

4۔ بجلی کی فراہمی

بیٹ مورجھنگی میں اب تک بجلی فراہم نہیں کی گئی۔ یوں یہاں کے مکین آنے والی ہر نئی ٹیکنالوجی سے بھی بے بہرہ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں کے مکین 2023 میں بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ یہاں کے مکینوں نے کہا کہ یہاں ارد گرد کے علاقوں میں بجلی کی سہولت موجود ہے لیکن بیٹ مورجھنگی کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔ عوامی نمائندے ہر بار وعدہ کر کے جاتے ہیں مگر ووٹ لینے کے بعد بس ٹرخاتے ہی رہتے ہیں۔ بلکہ اکثر نمائندگان کی تو شکل بھی اگلے انتخابات میں ہی نظر آتی ہے۔ جبکہ یہاں کے مکین بہت کم ہی کہیں آتے جاتے ہیں اس لئے وہ اپنے حقوق کیلئے بات کس سےکریں۔

 

5۔ صاف پانی کی فراہمی

بیٹ مورجھنگی کے مکین دریا کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہاں پر کوئی واٹرسپلائی سکیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی واٹر فلٹریشن پلانٹ لگایا گیا ہے۔ مکینوں نے ارباب اختیار سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر واٹر سپلائی کی سکیم ممکن نہیں تو کم از کم یہاں پر واٹرفلٹریشن پلانٹ کا ہی بندوبست کر دیا جائے تاکہ یہاں کے لوگ بھی صاف پانی پی کر امراض سے بچ سکیں۔

 

6۔  متفرق مسائل

بیٹ مورجھنگی کے مکینوں غلام اکبر منڈیرہ ، سعید احمد و دیگر نے بتایا کہ یہاں پر آنے جانے کیلئے کوئی سڑک یا پختہ راستہ موجود نہیں ۔ ہلکی سے بارش کے بعد تمام نظام زندگی معطل ہو جاتا ہے۔ بچے سکولوں تک نہیں پہنچ پاتے، مریض ہسپتالوں تک نہیں جا پاتے حتیٰ کہ اگر کوئی فوت ہو جائے تو اسے قبرستان تک پہنچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

 

اس کے علاوہ یہاں کے کچے راستے ہر وقت گردوغبار سے اٹے رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر بھٹہ خشت والوں نے پوری کر دی ہے۔ انڈس ہائی وے کے نزدیک واقع بھٹہ خشت والے یہاں سے مٹی کی ٹرالیاں اٹھواتے ہیں۔ وہ نہ تو ٹرالی کا پچھلا گیٹ بند کرتے ہیں اور نہ ہی مٹی پر ترپال ڈالتے ہیں۔ یوں یہ مٹی اڑ اڑ کر راستوں اور روڈز پر گرتی اور اڑتی رہتی ہے۔ بہت بار انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ حفاظتی اقدامات کریں گے اور روزانہ ان راستوں پر چھڑکاؤ بھی کریں گے مگر کچھ دنوں بعد ہی وہ ان باتوں پر عمل کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر تونسہ اور مقامی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ان ٹریکٹر ٹرالی والوں کو پابند کریں کہ وہ ٹرالی لوڈ کرنے کے بعد پچھلا گیٹ بند اور مٹی پر ترپال ڈال کر چلیں گے اور روزانہ کی بنیاد پر یہاں پر چھڑکاؤ بھی کریں گے۔

 

اختتامی کلمات

بیٹ مورجھنگی کے مکین گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں اور حقیقی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ 2023 میں بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ لہذا انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ یہاں کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

یوٹیوب کریئیٹ کے نام سے یوٹیوب کی ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ متعارف  |  YouTube Create

ریتڑہ | Retra 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے