امجد فاروق کھوسہ کی تونسہ کی سیاست میں دوبارہ انٹری
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
سابق
ایم این اے سردار امجد فاروق کھوسہ کی
تونسہ کی سیاست میں دوبارہ انٹری ہونے جا
رہی ہے۔ اس بات کا اعلان ان کے فرزند ارجمند اور ان کی سیاسی میراث کے وارث سردار
عبدالقادر کھوسہ نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے
کیا ہے۔ اس کے بعد ان کا یہ فیصلہ سوشل
میڈیا پر زور شور سے زیر بحث ہے۔ ان کے گروپ کے لوگ سوشل میڈیا پر ان
کے اس فیصلے کو نہ صرف سراہ رہے ہیں بلکہ انہیں خوش آمدید بھی کہہ رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی تونسہ کی سیاست میں
دوبارہ انٹری سے کیا ہلچل مچے گی یا صرف چائے کی پیالی میں اٹھنے والا طوفان ثابت
ہو گی؟ ۔ اس کے علاوہ تونسہ کی سیاست کے بے تاج بادشاہ سابق ایم ان اے
خواجہ شیراز محمود کی سلطنت حکمرانی پر کوئی
ڈینٹ ڈال پائے گی؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کیلئے کچھ عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان عوامل پر غور کئے بغیر کوئی بھی رائے قائم کر
لینا قرین انصاف نہ ہو گا۔ اس لئے سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیتے ہیں کہ سردار امجد
فاروق کھوسہ کے تونسہ کی سیاست میں آنے سے یہاں کی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے۔
سب
پہلا اثر تو پڑے گا کہ مقابلے کی فضا پیدا ہو گی۔ جو 2018 میں بالکل مفقود
ہو چکی تھی۔ خواجہ شیراز محمود میدان میں شیر کی طرح دھاڑتے پھرتے تھے اور ان کو
چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ سردار امجد فاروق کھوسہ ایک ہیوی ویٹ امیدوار ہیں
متعدد بار اس حلقے سے ایم این اے منتخب ہو
چکے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی ان کا ریکارڈ اچھا ہے۔ بہت سے دوست رکھتے
ہیں جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہے ہیں۔
دوسرا
اثر یہ پڑے گا کہ عام ووٹر کو زیادہ اہمیت ملے گی۔ جو امیدوار ان تک پہنچ پایا اور
انہیں اپنا ہونے کا احساس دلا پایا وہ زیادہ ووٹ لے جائے گا۔ جبکہ 2018 کے الیکشن
میں واحد ہیوی ویٹ امیدوار ہونے کے باعث دور دور تک کوئی مقابلہ نظر نہیں آ رہا
تھا۔ اس لئے عام ووٹر کو بھی محبت کم ہی ملی تھی۔ اس لئے زیادہ تر ووٹر ز تنکوں کی
طرح پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گئے تھے۔
تیسرا
اثر یہ پڑے گا کہ امجد کھوسہ گروپ کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو ان کے بعد سیاسی یتیم
سمجھنے لگے تھے ایک بار پھر شفقت پدری سے لطف اندوز ہوں گے۔ کیونکہ ان میں اکثریت
خواجہ شیراز گروپ یا میربادشاہ گروپ کے ساتھ شامل تو ہو گئے تھے مگر وہ وہاں اپنے
آپ کو مس فٹ سمجھ رہے تھے یا یوں کہہ لیں وہاں انہیں زیادہ اہمیت نہیں مل رہی تھی۔
یا وہ کھوسہ گروپ کے ساتھ کافی عرصہ رہ کر جو کمفرٹ لیول انہیں وہاں میسر تھا یہاں
انہیں ابھی ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگ رہا تھا وہ دوبارہ اپنے گھونسلے میں جا کر راحت
محسوس کریں گے۔
آئیے
اب ان عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جو الیکشن
رزلٹ پر اثر انداز ہوں گے۔ جن کی بنیاد پر کوئی بھی امیدوار اپنے گروپ کے ووٹوں سے
زیادہ لے کر اپنی جیت کو یقینی بنا پائے گا۔
پہلا
عمل تو یہ ہو گا کہ وہ کس سیاسی پارٹی کا ٹکٹ لیکر میدان میں اتر رہا ہے۔ یہ بھی
حقیقت ہے کہ تونسہ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا بڑا ووٹ بنک نہیں ہے جو الیکشن کے
نتائج پر اثر انداز ہو سکے ۔ لیکن ایک اور
فیکٹر ہوتا ہے کسی سیاسی جماعت سے نفرت کا فیکٹر جیسے کوئی جماعت ابھی ابھی ایوان
اقتدار سے نکل کے گئی ہے تو اس کی کارکردگی کے حوالے جو غصہ یا نفرت کا فیکٹر ہے
وہ اس کے امیدوار کے خلاف ضرور نکلتا ہے۔ جیسے 2008 کے الیکشن میں ق لیگ کے خلاف
جو نفرت لوگوں میں آ گئی تھی اس کے باعث خواجہ شیراز محمود بہت ہی کم ووٹوں سے جیت
پائے تھے۔ پھر وہ پی پی پی کی حکومت کا حصہ بن گئے اور کچھ عرصہ وزیرمملکت کے طور پر خدمات بھی انجام دیتے رہے
لیکن 2013 کے الیکشن میں وہ اپنا ووٹ بنک پی پی پی کی خراب کارکردگی کے باعث لوز کر گئے جس کے بعد
سردار امجد فاروق کھوسہ نے انہیں شکست دے دی تھی۔ حالانکہ سردار امجد فاروق کھوسہ
کی جیت اور خواجہ شیراز کی ہار میں ان دونوں کا ذاتی کوئی کردار نہیں تھا۔ امجد
فاروق کھوسہ کو دو وجوہات کے باعث زیادہ ووٹ پڑے ایک وجہ تھی ن لیگ کی پنجاب میں
اچھی کارکردگی جس کے باعث لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ن لیگ کو موقع ملنا چاہئے اور
دوسری وجہ تھی پی پی پی کے خلاف نفرت جو انہوں نے انتہائی بری کارکردگی اپنے 5 سالہ دور میں دکھائی تھی۔ جس کے باعث ن
لیگ کا امیدوار پی پی پی کے امیدوار سے بازی لے گیا تھا۔ حالانکہ اس سے قبل سردار امجد فاروق کھوسہ یہاں
سے مسلسل دو بار ہار چکے تھے اور ہارنے کے بعد تو کھوسہ صاحب
ویسے ہی حلقے میں نہیں آتے۔ اس لئے پی پی پی کی نفرت نے انہیں اس جیت کا موقع
فراہم کیا۔
دوسرا
عمل یہ ہو گا کہ دونوں امیدوار اپنے پینل کا انتخاب کیسے کرتے ہیں اور آیا سردار
میربادشاہ قیصرانی بھی قومی اسمبلی کی سیٹ پر انتخاب لڑتے ہیں یا کسی بھی پینل کا
حصہ بن کر صرف صوبائی اسمبلی تک محدود رہتے ہیں۔ اگر سردار میر بادشاہ قیصرانی خود
ایم این اے کا الیکشن لڑتے ہیں تو پھر صوبائی سیٹ پر مقابلہ کانٹے دار بن جائے گا
جبکہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر خواجہ شیراز محمود کیلئے آسان ہو جائے گا اور اگر وہ
صوبائی اسمبلی تک محدود ہو جاتے ہیں اور
سردار امجد فاروق کھوسہ کے پینل میں جاتے ہیں تو ان کیلئے صوبائی سیٹ جیتنا
نسبتاََ آسان ہوجائے گا۔ جبکہ قومی اسمبلی کی سیٹ پر سردار امجد فاروق اور خواجہ
شیراز محمود کے درمیان مقابلہ نسبتاََ زیادہ ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر سردار میر
بادشاہ قیصرانی اور خواجہ شیراز محمود کا الحاق ہو جاتا ہے تو پھر دونوں کیلئے
اپنی نشستیں جیتنا آسان ہو جائے گا۔ اب آپ
کہیں گے کہ میں نے دیگر صوبائی امیدواروں کو اس گروپ بندی میں ڈسکس کیوں نہیں کیا
تو اس کی واحد وجہ ہے کہ ہمارے حلقے میں صرف دو ہی سیاستدان ہیں خواجہ شیراز محمود
اور سردار میر بادشاہ قیصرانی جو خود بھی ووٹ لے سکتے ہیں اور دوسرے امیدوار کو
دلا بھی سکتے ہیں اس کے علاوہ ایسا قابل ذکر امیدوار نہیں جو خود بھی ووٹ لے سکے
اور جیت تک پہنچ جائے اور دوسروں کو بھی دلا سکے اور انہیں بھی جتا سکے۔
اختتامی تجزیہ
ان
تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مختصر طور پر کوئی رائے قائم کرنا چاہیں تو یہ
کہنا مشکل نہیں کہ خواجہ شیراز محمود کو ہرانا آسان نہیں ہو گا۔ کیونکہ تونسہ ضلع
کا جو کریڈٹ اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اس کے بعد آزاد ووٹروں کی بڑی
تعداد انہیں سپورٹ کرے گی اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے گروپ کے دوستوں کے ساتھ بھی
مسلسل رابطہ رکھا ہے ۔ ان کے گروپ کے ووٹرز بھی ان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں
ہوں گے۔ اس لئے یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ بنک
بڑھایا ہے کم نہیں کیا۔ البتہ جو ووٹ بنک 2018 میں سردار امجد فاروق کھوسہ کی غیر
موجودگی اور پی ٹی آئی کی ایسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے ان کے ساتھ جڑا تھا وہ
کچھ علیحدہ ضرور ہو جائے گا۔ البتہ سیاسی
بازی میں اپنی گوٹیاں درست طور پر پلیس کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں ہرانا
مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں:
لیہ
تونسہ پل پروجیکٹ ، عوام کی وزیر مواصلات شاہد اشرف تارڑ سے اپیل
تونسہ
ضلع کریڈٹ کس کا ۔ Taunsa
Zila - تحریر: فاروق شہزاد
ملکانی
0 تبصرے