جنگ آزادی میں خواتین کا حصہ، تحریر: ڈاکٹر تبسم آراء

جنگ آزادی میں خواتین کا حصہ، تحریر: ڈاکٹر  تبسم آراء

 

جنگ آزادی میں خواتین کا حصہ

تحریر: ڈاکٹر  تبسم آراء (ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی)

                                                                                     

سارے جہاں سے اچھاہندوستاں ہمارا

ہم بلبل ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

 

جنگ آزادی میں خواتین کا کردار ہمیشہ سے پس پردہ ہی رہا ہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں مردوں سے شانہ بہ شانہ لڑنے والی خواتین جنہوں نے جنگ آزادی کے میدان میں کسی سے پیچھے نہ رہ کر ہندوستان کو آزادی دلائی ہے۔ آزادی ہمارے لئے ایک نعمت ہے آزادی سے مراد (Independente) قوم‘ ملک یا ریاست کی ایک حالت ہے جس میں اس کے باشندے اور آبادی یا اس کے کچھ حصے خود حکومت کا استعمال اور زیادہ تر علاقے عام طور پر خود مختار ی ہو بیرونی رکاوٹوں کی عدم موجود گی ہو۔


            لفظ آزادی لاطینی ’لبرٹاس‘ سے آیا ہے اس اصطلاح کا معنی ہے کہ جس میں کوئی شخص قید میں نہیں ہوتا۔ یعنی وہ دوسرے لوگوں کا تابع نہیں ہوتا ہے۔


            انیسویں صدی کے نصف اول میں دہلی اودھ کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا ملک کے طول وعرض میں ایک آگ سی لگ گئی۔ ۷۵۸۱؁ء میں سارا ہندوستان انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس انقلابی جدو جہد میں ہندوستان کا چپہ چپہ ان کے لئے دوزخ بن گیا۔ اپنے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مسلم خواتین نے اس انقلابی دور میں غیرت وبہادری وسرفروشی اور ایثار وقربانی کے دائمی نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے پرچم بنائے، لیڈروں کی خاطر داری کی ’جہاد آزادی میں شریک اپنے باپ‘ بھائی‘ بیٹے اور شوہر کی راحت رسانی کا کام کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمل جدو جہد میں بھی حصہ لیا اور خواتین بطور رضاکار مہم میں شامل ہوئیں۔


            ’مہاتما گاندھی نے بھی کہا تھا کہ قومی جدو جہد آزادی کی تاریخ ہندوستانی خواتین کے تذکرے کے بناء مکمل نہیں ہوسکتی‘۔ تحریک عدم تعاون ہو یا انگورہ فنڈ کے لئے چندہ جمع کرنے کا کام میں خواتین ہمیشہ پیش پیش رہی۔ سودیشی سامان کو عام کیا گیا اور ولایتی کپڑوں میں آگ لگادی۔ خلافت فنڈ میں روپیوں اور زیور کے ڈھیر لگ گئے جس سے (بی اماں والدہ محمدعلی) کے طوفانی دوروں‘ حکومت مخالفت‘ تقاریراور چندے کی فراہمی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ سبھی پردہ نشین تھیں۔ اپنے زمانے کے معاشرتی تناظر میں ان خواتین کا بیدار سیاسی شعور اور قومی سیاسی زندگی میں ان کی شرکت قابل تحسین اور انتہائی جرأت مندانہ اقدام تھی۔


            ”ایک برطانوی افسر سر ہر کوٹ بٹلر نے 1916 ؁ء میں لارڈ ہارڈنگ کو لکھا تھا کہ ”علماء اور خواتین ہندوستان میں انتہائی اہم اثرات کے حامل ہیں۔ جب تک ان دونوں کے بارے میں میری حکمت عملی کامیاب ہے۔ مجھے سیاست دانوں کا کوئی خوف نہیں“  ۱؎ (Butler to Lord Harding / Jan 16th 1916)

 

            ”جنگ آزادی میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسی دوسری مسلم خواتین رہی ہوں گی جن کی قربانیاں آج ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوچکی ہیں 1937 میں مجاز لکھنوی مرحوم نے ہندوستان کی نوجوان عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے نصیحت کی تھی۔

 

تیرے ماتھے، پہ یہ آنچل، بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے، اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا

 

            ان خواتین کی اکثریت کالج یا اسکول کی فارغ التحصیل تھی جو 1930 ء کے قریب اور اس کے بعد گاندھی جی اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں کے خیالات ونظریات کے زیر اثر قومی محاذ آرائی میں شامل ہوئیں اور یہ انڈین نیشنل کانگریس Indian National Congress  کے ہمہ جہت مقاصد‘ ہندو مسلم اتحاد‘ عدم تشدد‘ دیہی ترقی‘ تعلیم بالغان‘ ہری جنوں کی فلاح وبہبود کے تعمیری منصوبے عوامی رابطہ منصوبہ  Mass Contect  جیسے کاموں سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہیں۔ وہ کھل کر عوامی جلسوں میں شریک ہوئیں‘ ولایتی کپڑوں اور شراب کی دکانوں پر دھرنا دیا۔ ان کی اکثریت قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرچکی ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا واحد مقصد متحدہ ہندوستان کا خواب تھا۔ ان خواتین میں اکثر نے بعد میں آزاد غیر مذہبی جمہوری ہندوستان کی تعمیرمیں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ کے اوراق خاتون مجاہدین آزادی کے کارناموں سے بھی بھری پڑی ہے۔ آصف علی ’رانی لکشمی بائی‘ سروجنی نائیڈو‘ جھانسی کی رانی‘بی اماں اور بیگم حضرت محل وغیرہ کانام بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروفوں سے لکھا گیا ہے۔ ان میں قابل ذکر بیگم حضرت محل ہے۔

 

بیگم حضرت محل:

            بیگم حضرت محل انگریزوں کے لئے ایک ایسی بجلی ثابت ہوئیں جو اس دور میں متوقع تھی یہ وہ زمانہ تھا جب عوام کے سبھی طبقے ایسٹ انڈیا کمپنی East India Company کے طریقہ کار سے سخت نالاں تھے۔ کمپنی کا حلقہ تجارت جب بڑھا تو جو نظریات‘ مذہب‘ عزت‘ دولت کے سلسلہ میں عام کئے گئے وہ عوام کے لئے نہ صرف نئے بلکہ قطعی ناقابل قبول تھے۔


            ”انیسویں صدی کے عہد وسطی ہندوستانی تاریخ کا وہ پر آشوب زمانہ تھا جب سلطنت مغلیہ تیزی سے روبہ زوال تھی۔۔ تاجر کی حیثیت سے آئے ہوئے انگریز کے قدم سرزمین ہند پر بحیثیت حکمراں پوری طرح جم چکے تھے۔ ہندوستانی راجے مہاراجے اپنی اندرونی سازشوں کے سبب لڑ مر کر اتنا کمزور ہوچکے تھے کہ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سیلاب میں بہے جارہے تھے، لیکن اکثر برسے ہوئے بادلوں میں بھی کچھ بجلیاں رہ جاتی ہیں۔“ ۲؎

                                (28 اگست ص 26 بیگم حضرت محل نمبر نظارہ لکھنو)

           

  جنگ آزادی کے سپاہیوں کو ایک سربراہ کی تلاش تھی جو ان کے حوصلے بلند کرسکے۔ فوجی افسروں نے شاہی خاندان کے چند سربرآوردہ افراد سے قیادت کی درخواست کی لیکن وہ بیگم حضرت محل کی ذات تھی جو انہوں نے اس پرآشوب ماحول میں قیادت سنبھالی اور سہارا دیا اور شجاعت کا ثبوت دیا۔ انہو ں نے قیادت‘ سنبھالتے ہی بھرتی کا اعلان کیا۔ تمام تعلقہ داروں اور زمینداروں کے نام احکام جاری کئے کہ

 "ہمیں یہ ملک آبائی خدا نے ہم کو عطا کیا دفع کفار فرنگ لازم ہے یا ہم شریک ہو کر باقی ماندگان بیلی گارڈ کو قتل کردو، جو ان کو قتل کرے گا اس کا نصف علاقہ اس کو معاف ہوگا"۔ 

                                                                        بحوالہ (قیصر التواریخ ص 229)

            "تمام امور سلطنت کو حضرت محل ایک کمیٹی کی مشاورت سے طے کرتی تھی جس میں ہندو مسلم دونوں برابر کے شریک تھے۔غدر کے زمانہ میں ان کا قیام چولکی میں تھا اور اسی عمارت میں ان کا دربار بھی ہوتا تھا"۔

                                                            بحوالہ:عبد الحلیم شرر گذشتہ لکھنو‘ ص 134)        

            حضرت محل مجموعہ عام میں اور محاذ جنگ پر تلوار ہاتھ میں لئے اپنے پر جوش الفاظ سے وہ عوام اور فوج کے دلوں میں قربانی‘ حب الوطنی اور آزادی کا جوش بھردیتی تھی اور وہ دوران جنگ فوجوں کی کمان خود کرتی تھیں۔ فوجی سرداروں کی ایک میٹنگ میں انہو ں نے کہا تھا۔

”دلی کی عظیم طاقتور سلطنت نے بڑے امید افزاد وعدے کئے تھے اور دہلی سے جو مراسلات لکھنو پہنچے تھے وہ میرے دل میں خوشی کی لہریں دوڑادیتے تھے۔۔ لیکن جلد ہی بادشاہوں کو معزول کردیا گیا۔ سکھوں اور جاٹوں کو انگریزوں نے خرید لیا اور مراسلات کا سلسلہ کاٹ دیا۔ نانا فڈنویس کو بے دخل کردیا گیا اور لکھنو کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ ایسی حالت کیا ہونا چاہئے؟ اور ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ لکھنو میں پوری فوج موجود ہے لیکن عزم وولولے سے خالی ہے یہ اگر فوج میں جانبازی کا عزم اور حب الوطنی کا ولولہ موجود ہے تو وہ عالم باغ پر حملہ کیوں نہیں کرتی؟ کیا فوج اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ برطانوی فوج کو مزید کمک پہنچ جائے اور وہ لکھنو کا محاصرہ کرلے مجھے جواب دو تم لڑنے کے لئے تیارہے یا نہیں؟“۔  ۴؎

(حضرت محل / ص 26  / 1858 ؁ء  Intellligent Department Secret branch Nation archieves New Delhi)

            حضرت محل سپاہیوں کو حوصلے سے زیادہ انعام دیتیں۔ معرکہ عالم باغ میں راجہ مان سنگھ کو ان کی غیر معمولی جانفشانی کے صلہ میں علماء‘ خلعت‘ رومال اور دوشالے کئے‘ فرزند خاص‘ کا خطاب اور ملبوس خاص سے اپنا دوپٹہ عنایت کیا۔ اور کہا کہ فتح کے بعد بہت سہارا روپیہ اور جاگیردے کر خوش کروں گی۔

                                                 بحوالہ (قیصر التواریخ میں 267)

            امرت لال ناگہ لکھتے ہے کہ

 " بیگم حضرت محل نے رانی لکشمی کے ہمراہ عورتوں کا ایک فوجی گروہ (سنگھٹن) تیار کیا تھا۔ محلوں کی باندیاں ان کی نگرانی میں قواعد کرتی تھیں۔ انہی عورتوں نے جاسوس عورتوں کا ایک گروہ بھی تیار کیا تھا۔ اس طر ح اس آپسی نفاق کے مایوس کن حالات میں بھی ایک ایک فرد کے دل میں بغاوت کا جذبہ فروغ دیا اور تقریباً پونے دو برس تک اودھ میں برقرار رکھنا بیگم ہی کا کام تھا ……"  ۵؎

                                                            (امرت لال ناگہ۔ غدر کے پھول۔ ص 260)

            حضرت محفل کے تدبر اعلی دماغ قابلیت اور استقامت نیز ممو خان اور احمد اللہ شاہ کے حسن تدبیر نے انقلابی تحریک کو اس کامیابی سے چلایا کہ سپاہیانہ زندگی سے علیحدگی کے سبب طبیعتوں جو بے حسی اور جمود پیدا ہوگیا تھا۔ وہ یکدم رخصت ہوگیا جو ہتھیار زنگ آلود ہوگئے تھے وہ تیز کئے گئے ان کی جھنکار فضائے آسمانی میں گونج کر پستہ دلوں کو پھر گرمانے لگی۔ حضرت محل سے برطانوی افواج کا مقابلہ پہلے عالم باغ میں ہوا۔ گھمسان جنگ ہوئی۔ بہت سے انگریزی افسر مارے گئے۔ حضرت محفل ایک گرانڈیل ہاتھی پر سوارفوج کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ سر فرزانہ بیگم نے کلکتے کی اختر محل کو اپنے خط میں لکھتی ہے کہ

 "میں نہیں سمجھتی کہ بیگم حضرت محفل ایسی آفت کی پرکالہ ہے،  وہ خود ہاتھی پر بیٹھ کر تلنگوں کے آگے آگے فرنگیوں سے مقابلہ کرتی ہے… اس کو ہراس مطلق نہیں ہیے ……"  ۶؎

                                                                        (بحوالہ: بیگمات اودھ کے خطوط)

            کٹھ مانڈو میں حضرت محل کی بے نشان قبر گویا فریاد کر رہی ہے کہ آزاد ہندوستان کو جنگ عظیم کی مجاہدہ بہادر اور فراست پر خود شجاعت کو ناز تھا جس کی سیاست سے انگریزوں کی شاطرانہ سیاست سے زبرست ٹکر لی۔ اس کا مقصد اس ملک میں ہند و مسلم اتحاد کی علمبرداری تھی اور جس کی حریت پسندی نے پسپائی کے بعد بھی انگریزی سامراج کے تابع داری قبول نہ کی۔

 

            آج ہندوستان نے اسے فراموش کردیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو ہم ان مجاہدوں کی بہادری شجاعت دلیری سے واقف کروایا جائے ورنہ ہندوستان اپنے اس قرض کو کبھی نہ اتارسکے گا۔

ہزاروں سال نرگس، اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ  ور پیدا

 

                                                                               ڈاکٹرتبسم آراء

                                                                             پی ایچ ڈی اسکالر

                                                                   عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد انڈیا

                                                                                    9014782069

(نوٹ: اس مضمون کے مندرجات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اردو ورلڈ)


یہ بھی پڑھیں:

انشائیہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات

 عصر حاضر میں اردو کا موقف اور اس کاحل 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے