بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ظالمانہ یا منصفانہ
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
آج
ہم اپنے اس آرٹیکل " بجلی کی قیمتوں میں
اضافہ ظالمانہ یا منصفانہ " میں یہ جائزہ لیں گے کہ پاکستان میں بجلی کی
قیمتوں میں جو کچھ عرصہ سے مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے کیا بجلی کی قیمتوں میں ہونے
والا یہ اضافہ ظالمانہ ہے یا منصفانہ؟
"
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ظالمانہ یا منصفانہ " اس عنوان پر بات کرنے کیلئے
ہمیں کچھ عوام پر غور کرنا ہو گا۔ جس میں بین الاقومی سطح پر بجلی کی قیمتوں کا
جائزہ، اور اگر اس ملک کی بجلی قیمتوں کا پاکستان میں بجلی کی قیمت سے تقابلی
جائزہ لینا ہے تو پھر اس ملک کی افراد کی فی کس آمدن اور جی ڈی پی گروتھ کا تقابلی
جائزہ بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ ا س کے ساتھ ساتھ اس ملک میں بجلی بنانے کے ذرائع بھی
جاننا ضروری ہے۔ لیکن چونکہ ان سب باتوں کا الگ الگ جائزہ لینا شروع کریں تو
آرٹیکل کافی طویل ہو جائے گا۔ اس لئے میں اس آرٹیکل کو طویل ہرگز نہیں کرنا چاہوں
گا کیونکہ آجکل کسی کے پاس طویل مضمون پڑھنا تو کجا پڑھنے ہی کا نہ تو وقت ہے اور
نہ ہی شوق باقی رہا ہے اس لئے میں مختصر طور پر اپنا تجزیہ پیش کروں گا جو میں اب
تک مختلف اعدادو شمار دیکھ کر سمجھ پایا ہوں ان کی بنیاد پر آپ کو بتانے کی کوشش
کروں گا کہ " بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ظالمانہ ہے یا منصفانہ " ؟
بجلی کے بلوں لاگو ٹیکسز اور اضافی چارجز
اگر
بجلی کا بل سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ پاکستان میں عام
آدمی کو ٹیکسز اور چارجز کے نام پر صرف لوٹا اور چونا لگایا جاتا ہے۔ میرا کہنا ایسا کیوں ہے اس کیلئے کچھ مثالیں
دینا چاہوں گا۔
1۔ کرایہ
میٹر: سب سے پہلی مثال تو یہ ہے کہ جب
بھی کوئی صارف میٹر لگانے کیلئے درخواست دیتا ہے تو اس صارف سے قیمت میٹر، قیمت
تار، اور انسٹالیشن اور دیگر چارجز کے نام پر بھاری رقم اینٹھ لی جاتی ہے۔ اس پر ایک ظلم اور کہ جس میٹر کی قیمت صارف
ایڈوانس میں ادا کر چکا ہے اسی میٹر کا کرایہ اس صارف سے ہر بل کے ساتھ الگ سے
وصول کیا جاتا ہے۔
2۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ: ہر ماہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر صارفین کو الگ سے
چونا لگایا جاتا ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ تمام صرف شدہ یونٹس پر عائد کر دیا جاتا
ہے حالانکہ پاکستان صرف تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا نہیں کرتا بلکہ پانی اور سورج سے بھی بجلی بنائی جاتی ہے۔ لیکن بجلی
کی قیمت طے کرنی ہو یا فیول پرائس ایڈجسٹ
کرنی ہو اس کیلئے صرف تھرمل ذرائع بلکہ کرائے کے جو مہنگے بجلی پیدا کرنے یونٹس
لگائے گئے ہیں صرف انہی کا ٹیرف مدنظر رکھا جاتا ہے اور پھر ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا
ہے کہ پاکستان کو بجلی کی پیداوار بہت مہنگی پڑ رہی ہے اس لئے سستی بجلی دے کر
ملکی خزانے پر بہت بوجھ پڑ رہا ہے۔ حالانکہ یہ ٹسوے بہاتے ہوئے ہمارے نام نہاد
عوامی حکمران یہ کبھی نہیں بتاتے کہ کتنے فیصد بجلی پاکستان کے اپنے ذرائع یعنی
پانی ، سولر یا ونڈ ملز کے ذریعے پیدا کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کتنے فیصد بجلی ملک
کے اپنے تھرمل پاور پروجیکٹس سے اور کتنے کرائے کے بجلی گھروں سے لی جا رہی ہے۔
صرف چند فیصد مہنگی بجلی کی بنیاد پر پورا ٹیرف تھوپ دیا جاتا ہے۔ ایک اور مزے کی بات بتاؤں اس فیول پرائس
ایڈجسٹمنٹ پر چودہ، پندرہ فیصد ٹیکس الگ سے وصول کیا جاتا ہے جو ٹیکسز میں ظاہر
نہیں کیا جاتا۔
3۔ سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسمنٹ: فیول پرائس ایڈجسمنٹ کے ساتھ ایک اور ظالمانہ وصول جو
صارفین سے کی جاتی ہے وہ ہے سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے نام پر لگایا جانے والا
جگا ٹیکس ہے ۔ یہ جگا ٹیکس بھی دس، بیس ، تیس روپے نہیں بلکہ 4، 5 فیصد سے بڑھ کر
بعض اوقات 10 فیصد سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
4۔
ٹیکس در ٹیکس: بجلی کا بل اٹھا کر
دیکھا جائے تو ان بلوں پر ٹیکس در ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ بعض تو ٹیکس ایسے ہیں جن
کا نام بھی تجویز نہیں کر پائے اس کیلئے انہوں نے فاضل ٹیکس اور مزید ٹیکس کے نام
پر بھی لوٹ مار جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ فاضل ٹیکس اور مزید ٹیکس کس مد میں وصول کیا
جاتا ہے پہلے تو کوئی پوچھتا نہیں اور اگر کوئی پوچھ لے تو صرف یہی کہا جاتا ہے کہ
یہ بھی ٹیکسز ہیں جو ادا کیا جانا ضروری ہے اگر ادا نہیں کریں گے تو آپ کا وہ میٹر
بھی اتار لیا جائے گا جس کی قیمت آپ پہلے ادا کر چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ جگا ٹیکس
کے طور پر کرایہ میٹر بھی ادا کر رہے ہیں۔ اب آپ کو بتاتا چلوں کہ کیسے کیسے ٹیکس ایک عام
صارف سے وصول کئے جاتے ہیں۔ ان ٹیکسز یا
چارجز میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ایف سی سرچارج، سہہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، محصول
بجلی، ٹیلی ویژن فیس، جنرل سیلز ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر جنرل سیلز ٹیکس،
فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی (یہ دونوں ٹیکسز اس خفیہ جگا ٹیکس کے علاوہ
ہیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) یہ تو وہ
ٹیکسز ہیں جو ہر صارف سے وصول کئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی صارف پر زیادہ پیار آ
جائے تو اس سے متنازعہ رقم، انکم ٹیکس، فاضل ٹیکس، مزید ٹیکس، فیول پرائس
ایڈجسٹمنٹ پر انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر فاضل ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ
پر مزید ٹیکس، تصحیح بل اور مقررہ تاریخ تک ادا نہ کرنے کی صورت میں سرچارج بھی
وصول کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی قیمتیں ظالمانہ یا منصفانہ
اوپر
بتائی گئی تفصیلات کو پڑھ کر یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں
بجلی کی قیمتیں ظالمانہ ہیں یا منصفانہ، لیکن اگر مزید بات کی جائے تو کوئی بھی
غیرجانبدار بجلی کا بل دیکھ کر ہی بتا دے
گا کہ صارفین کو نہ صرف لوٹا جا رہا ہے بلکہ بیدردی کے ساتھ لوٹا جا رہا ہے۔ حتیٰ
کہ ان چوروں اور مراعات یافتہ طبقے کے بل بھی ان لوگوں سے وصول کئے جا رہے ہیں جو
ایمانداری سے بجلی استعمال کرتے ہیں اور بل بھی ادا کرتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ
پنجاب کے چھوٹے یا ریموٹ چند علاقوں کو
چھوڑ کر تمام پنجاب کے علاقوں سے بجلی کے بل کی وصول آسان بھی ہے اور بزور وصول
بھی کئے جاتے ہیں اور بجلی کی چوری بھی واپڈا ملازمین اور چند طاقتوروں کے علاوہ
کوئی نہیں کر پاتا اور یہ چوری بھی بمشکل
10 فیصد تک ہی پہنچ پاتی لیکن ملک کے دیگر صوبوں میں سوائے چند بڑے شہروں کے کوئی
بھی بل نہیں دیتا ہے بلکہ اکثر علاقوں میں
تو بجلی کے میٹر ہی نہیں لگے ہوئے سب لوگ بجلی کے پولوں سے براہ راست کنڈیاں ڈال
کر چوری کرتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ اس چوری اور سینہ زوری کو عام
صارف پر ڈال دیا جاتا ہے جو نہ تو بجلی چوری کرتا ہے اور بل بھی ادا کرتا ہے۔ اس
چوری کو لائن لاسز کا نام دے کر اسے ٹیرف میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے اور غریب صارف سے
جگا ٹیکس کے نام پر وصول کیا جاتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافے کے بعد بجلی
ایک لگژری بن گئی ہے جو اب غریب شہریوں کے گلے کا پھندہ بنتی جا رہی ہے۔ لوگ بھاری
بلوں کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لیکن حکومت اور اعلیٰ عہدوں پر
بیٹھے نام نہاد ہمدردوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ آئی ایم ایف کا نام
لیکر آئے روز پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ حالانکہ آئی
ایم ایف نے کیا دھتورا پی رکھا جو انہیں بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں
بڑھانے کیلئے کہے گا۔ آئی ایم ایف تو انہیں اپنے غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے اور
انکم بڑھانے کا کہتا ہے اور اس کیلئے وہ ان سے جب یہ روڈمیپ مانگتے ہیں کہ انکم
کیسے بڑھائیں گے اور اخراجات کس طرح کم کریں تو یہ نااہل انہیں لکھ کے دیتے ہیں کہ
وہ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں
اور ٹیکسز بڑھا کر اپنی آمدن بڑھائیں گے اور غریبوں کو دی گئی سبسڈی ختم کر کے
اپنے اخراجات کم کریں گے۔ چونکہ ان لٹیروں کو غریبوں اور کمزوروں کو لوٹنا آسان
لگتا ہے اس لئے چھری چلا دیتے ہیں۔ یہ نہ تو اپنی عیاشیاں ختم کرتے ہیں اور نہ
امیروں پر ڈائرکٹ ٹیکس لگاتے ہیں کیونکہ امیر طاقتور ہیں یہ اگر ان پر ٹیکس لگاتے
ہیں تو وہ ان کا کمیشن بند کر دیتے ہیں۔ اب بے چارے وہ بھی مجبور ہیں اپنی عیاشیاں کیسے
ختم کریں، اپنے کمیشن اور کمائیاں کیسے چھوڑ دیں ، پس غریب ہی آسان ٹارگٹ ہے اس
لئے تمام جھٹکے اسی کو دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح غریب بے چارہ بھی مجبور ہے اس ملک
میں پیدا ہونا اس کی چوائس نہیں تھا اب وہ
پیدا ہو گیا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی مرضی جان کر کڑھ کڑھ کے جی رہاہے یا
پھر خودکشیاں کر رہا ہے۔
0 تبصرے