یہ ایلیٹ کلاس کا پاکستان ہے لہذا سسک سسک کر مرتے رہیں

 تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

یہ ایلیٹ کلاس کا پاکستان ہے لہذا سسک سسک کر مرتے رہیں


ڈاکٹر حفیظ اورکزئی ایک درد دل رکھنے والے مسیحا ہیں ۔  ڈاکٹر حفیظ اورکزئی اور میں ٹویٹر پر ایک دوسرے کو فالو کرتے ہیں اس لئے میں اکثر دیکھتا ہوں کہ وہ ایسی ویڈیوز اور خبریں ٹویٹ کرتے رہتے جس میں ظلم اور بے ظابطگیاں عام آدمی کا منہ چڑاتی رہتی  ہیں۔ چونکہ ان کا تعلق شعبہ صحت سے ہے تو ان کے زیادہ تر ٹویٹس کا تعلق شعبہ صحت ہی سے ہوتا ہے۔  گزشتہ  روزبھی  ڈاکٹر حفیظ اورکزئی نے سروسز ہسپتال لاہور کی ایک ویڈیو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شیئر کی جس میں دکھایا گیا ہے چند ڈاکٹر اور اپریشن تھیٹر سٹاف ایک مریض کا بغیر بجلی کے اپریشن کر رہے ہیں اور اس ویڈیو میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ غریب مریضوں کے بلاک میں مریض حتیٰ کہ اپریشن تھیٹر تک میں بجلی دستیاب نہیں ۔ ایسا بجلی نہ ہونے کے باعث جنریٹر کا ڈیزل ختم ہو جانے کی وجہ سے ہوا ۔ اسی دوران وی آئی پی بلاک کے جنریٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی اور ویڈیو میں بھی بتایا جا رہا تھا کہ وی آئی پی بلاک کا جنریٹر چل رہا ہے اور وہاں پر ڈیزل بھی موجود ہے۔  

 

یہ تو تھی  ایک خبر اب آتے ہیں دوسری خبر کی جانب ، حکومت پنجاب نے بیوروکریسی کو لگژری گاڑیوں کی فراہمی کیلئے 3 ارب 20 کروڑ کی گرانٹ جاری کی ہے۔  ایک منٹ کیلئے یہ تصور کریں کہ ان حالات میں جب ملک ڈیفالٹ جیسے حالات سے گزر رہا ہے۔ اگر  دوست ممالک ہمیں مزید قرضہ نہ دیں یا اپنے قرضے ری شیڈول نہ کریں تو ہم ڈیفالٹ ہو چکے ہیں۔   میں آپ کو ایک تلخ حقیقت سے بھی آگاہ کرتا چلوں کہ جو ممالک ہمیں قرضہ دے دیتے ہیں ہم انہیں دوست ممالک کہنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ کوئی ملک دوسرے ملک کا دوست نہیں ہوتا  یہ بھی مفادات کا رشتہ ہوتا ہے جسے ہم بھی نبھاتے ہیں اور وہ بھی نبھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ، یہ 3 ارب 20 کروڑ کا ڈاکہ پاکستان کی عام عوام کی جیبوں پر ڈال کر افسرشاہی کے اللوں تللوں پر نچھاور کیا جا رہا ہے ، ایمانداری سے بتائیں کہ اگر یہ ملک واقعی ایک فلاحی مملکت ہوتی تو کیا عوام کے منہ کا نوالہ چھین کر عوام کے ملازمین کو لگژری گاڑیاں فراہم کی جاتیں؟ اور پھر ضرورت ہی کیا ہے سرکاری ویئرہاؤسز میں ہزاروں کی تعداد میں لگژری گاڑیاں جو صرف چند سال ہی چلی ہوئی ہیں کھڑی کھٹارا بن رہی ہیں ۔ ہر سال یہ گاڑیاں ان ویئرہاؤسز میں پھینک کر نئی گاڑیاں منگوا لی جاتی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ایک ایک افسر کئی کئی لگژری گاڑیاں استعمال میں رکھتا ہے ۔ اگر یہ ظلم صرف گاڑی لینے تک ہی محدود ہوتا تو شاید یہ غریب قوم پھر بھی  اسے برداشت کر لیتی لیکن جس طرح کی لگژری گاڑیاں ہوتی ہیں یہ تو فی لیٹر پٹرول یا  ڈیزل میں ایک دو کلومیٹر بڑی مشکل سے سفر کرتی ہیں۔ اب اس پر غور کریں ان گاڑیوں کے صرف ایک کلومیٹر کا خرچ ایک عام شہری کے پورے گھرانے کے پورے دن کےکھانے کے خرچے  کے برابر ہوتا ہے ۔

 

یہ تو نوحہ ہے جسے شاید عام آدمی بھی نہ پڑھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف ہم چند مخصوص لوگوں کی عیاشیوں پر روزانہ اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اور دوسری طرف جس عام آدمی کا خون نچوڑ کر عیاشیاں کی جاتی ہیں ان کے اپریشن تھیٹر اور وینٹی لیٹر پر  پڑے مریضوں کی جان بچانے کیلئے بھی چند لٹر پٹرول یا ڈیزل دستیاب نہیں۔ایک ایک دن میں سات روپے سے زائد بجلی کا نرخ فی یونٹ بڑھا دیا جاتا ہے اوپر سے یہ بیان بھی دیئے جاتے ہیں کہ غریب آدمی کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ آپ غریب آدمی کے نام پر خود  اور ہر طرح کی افسر شاہی عیاشیاں کرتے ہو اور بل غریب آدمی کے نام پر پھاڑ دیتے ہو۔ بجلی کے بل ملک کے ادارے، افسر شاہی اور امیر لوگ نہیں دیتے اور بل غریب آدمی کے نام جاری کیا جاتا ہے۔ اوپر سے ٹیکس در ٹیکس کا عذاب الگ سے مسلط کر رکھا ہے۔ اس مملکت میں صرف عام آدمی کو لوٹا ، کھسوٹا اور نوچا جا رہا ہے۔

 

بہت سی باتیں جنہیں سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹا جا رہا ہے ( آگہی بھی اک عذاب ہے)  لیکن میرا قلم میرے دماغ میں اٹھنے والے طوفان کا بوجھ نہیں سہار سکتا اس لئے تھوڑے کو زیادہ جانیں ۔ اس کا ذمہ دار میں جہاں اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو دیتا ہوں وہاں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس کا بڑا ذمہ دار اس ملک کا عام آدمی بھی ہے جو ظلم تو سہتا ہے مگر اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ سوشل میڈیا پر اکثر دیکھتا ہوں کہ لوگوں نے پوسٹیں لگائی ہوتی ہیں کہ صحافی اس مسئلے کیلئے آواز نہیں اٹھا رہے صحافیو کہاں مر گئے ہو ؟  ۔ او بھائی تم خود کیوں نہیں بولتے آبلے پڑے ہیں زبان پہ کیا؟ جب تک تم خود نہیں نکلو گے تب تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مگر کیا کریں ہمیں تو سیاست سے ہی فرصت نہیں ہم ایک سیاسی لیڈر کیلئے روڈ بھر دیتے ہیں  جس نے سوائے اپنی تجوریوں کے بھرنے اور مذموم مقاصد کے  ہمارے لئے کچھ بھی نہ کیا ہو اپنے دوستوں ، رشتہ داروں سے لڑتے پھرتے ہیں کیا ہم نے کبھی اپنے اور عام آدمی کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی ہے یا احتجاج کیلئے نکلے ہیں لیکن الزام ہم صحافیوں کو دیتے ہیں۔ صحافی صرف مسئلے کی نشاندہی کر سکتے ہیں فریق بن کر کسی عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے احتجاجی پوسٹر نہیں اٹھا سکتے، نعرے نہیں لگا سکتے ۔ جب تک آپ اپنی تقدیر بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے کوئی بھی گھر بیٹھے آپ کو حقوق دینے نہیں آئے گا۔ اور نہ کوئی نام نہاد سیاسی لیڈر تمہارے دکھوں کی ترجمانی کر کے تمہیں تمہارے حقوق دلائے گا اس لئے جس کی بھی حکومت ہو اپنے حق کیلئے خود آواز بلند کریں۔  اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں کسی بھی تعلق خواہ وہ جماعتی ہو ، سیاسی یا ذاتی کی پرواہ کئے بغیر اچھے آدمی کو ووٹ دیں اپنے میں سے  ہی کسی  کوووٹ دیں جو آپ کے مسائل سے آگاہ ہو جب وہ اسمبلی میں جائے گا تو وہ آپ کی بات بھی کرے گا ورنہ بھول جائیں کہ یہ سسٹم تبدیل ہو پائے گا۔ آپ کا خون نچوڑا جائے گا اور پینے والے پیتے رہیں گے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

عمران خان کے گرد گھیرا مزید تنگ،  چودہ طبق روشن کر دینے والے انکشافات

ہم کہاں آ کھڑے ہیں، معصوم بچے بھی ہماری جہالت کا شکار ہو گئے ہیں۔  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے