نواز
شریف واپس کب آئیں گے اور الیکشن کب ہوں گے؟ معروف صحافی سہیل وڑائچ نے تازہ ترین انکشافات میں کہا ہے کہ مسلم لیگ ن نے
ایسٹیبلشمنٹ کو بتا دیا ہے کہ مسلم لیگ ن اگر اقتدار میں آئیں گی تو ان کے وزیر
اعظم نواز شریف ہی ہوں گے چاہے وہ کچھ عرصہ کیلئے وزیراعظم بن کر پھر اقتدار اپنے
بھائی شہباز شریف کے حوالے کر دیں۔ سہیل وڑائچ نے بھی کہا کہ اگلے وزیراعلیٰ پنجاب
کی امیدوار مریم نواز شریف ہی ہوں گی۔
نواز
شریف کے خلاف کچھ عرصہ قبل تک ایسٹیبلشمنٹ میں مزاحمت موجود تھی لیکن اب لگتا ہے
کہ انہوں نے بھی نواز شریف کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی
اور متبادل بھی نہیں ہے۔ جہانگیر ترین اتنے مقبول نہیں کہ وہ پی ٹی آئی کا مقابلہ
کر سکیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں بہت ہی کمزور ہے وہ بھی اس پوزیشن میں
نہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کر سکے ۔ تو پھر ایسٹیبلشمنٹ کے پاس واحد
آپشن مسلم لیگ ن ہی دستیاب ہے جو پنجاب میں ووٹ بنک رکھتی ہے۔ جو الیکشن میں پی ٹی
آئی کے مقابلے میں زیادہ بہتر پرفارم کر سکتی ہے۔ لہذا ایسٹیبلشمنٹ کو بھی وہی کارڈ کھیلنے ہیں جن
پر وہ جیت سکے۔
نامور
صحافی سہیل وڑائچ نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایسٹیبلشمنٹ
کی نواز شریف کی قبولیت کے بعد ان کے پاکستان آنے کی رکاوٹیں جسٹس بندیال کے جانے
کے بعد مکمل طور پر ہٹ جائیں گی۔
سہیل
وڑائچ نے یہ بھی کہا کہ ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ نگران حکومت لمبی جائے گی یا
یہ حکومت لمبی چلی گی۔ کیونکہ ابھی بھی کچھ نہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو ابھی طے کرنا
باقی ہیں یا کم از کم یہ باتیں ابھی منظر پر نہیں آئیں۔ اس حکومت کے پاس یہ چوائس تو موجود ہے کہ اپنی
مدت کو ایک سال تک بڑھا لے۔ لیکن اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں کہ اگر آئی ایم ایف
پروگرام کی شرائط کے مطابق سخت فیصلے کرنا پڑے تو اس حکومت کی شہرت مزید داغدار ہو
سکتی ہے۔ مہنگائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
لیکن پھر بھی شہباز شریف شاید یہ رسک لینے کو تیار ہو جائیں کہ اگر فوری طور پر الیکشن ہوتے ہیں اور ایسی
نگران حکومت آ جاتی ہے جو ایسٹیبلشمنٹ کی مکمل طور پر آلہ کار بن جاتی ہے یا وہ ان
کے خلاف ہی چلنا شروع ہو جاتی ہے وہ چاہتے
ہیں کہ ایسی نگران حکومت آئے جو ان کیلئے کام کرے اور ایسٹیبلشمنٹ کو بھی ساتھ لے
کر چلے۔
سہیل
وڑائچ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ابھی نگران وزیراعظم کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور نہ
ہی یہ فیصلہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ کیونکہ نگران وزیراعظم کیلئے انہیں ایک اور
محسن نقوی چاہئے جو کہ کوئی اور نہیں ہے محسن نقوی صرف ایک ہے۔ تاہم یہ فیصلہ بھی
ہو جائے گا کوئی ایک فریق نہیں بلکہ تمام فریق مل جل کر فیصلہ کریں گے۔
حکمران
اتحاد کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی
ڈی ایم کا اتحاد ان کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے مفادات مشترک ہو چکے ہیں۔ میرے خیال
میں وہ الیکشن توایک ایک ہو کر لڑیں گے مگر الیکشن کے بعد پھر ایک ہو جائیں گے۔ اسی
اتحاد میں رہیں گے اور اگر حکومت میں رہنا ہے تو پھر اکٹھے ہو جائیں گے۔
انہوں
نے مزید کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو گیا ہے ہاں البتہ کمزور
ضرور ہو گئی ہے پھر بھی اس کا کافی ووٹ بنک موجود ہے۔ اس لئے میرا یہ کہنا ہے کہ
جب تک پی ٹی آئی ووٹ بنک توڑ نہیں دیا جاتا یہ حکمران اتحاد ایک دوسرے سے لڑتا بھی
رہے گا اور اکٹھا بھی ہوتا رہے گا۔ استحکام پاکستان پارٹی کیلئے بھی یہ موزوں ہے
کہ وہ حکمران اتحاد کے ساتھ شامل نہ ہو بلکہ الگ رہ کر ہی وہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک
اپنی طرف مائل کرے تاہم یہ اب اس کی قیادت پر ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک توڑنے
کیلئے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔
نواز
شریف کی واپسی اور الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا یہ تو طے ہے کہ
نواز شریف جسٹس بندیال کے ہوتے ہوئے واپس نہیں آئیں گے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ
وہ فی الفور واپس نہیں آ رہے اسی طرح نواز شریف کے بغیر مسلم لیگ ن بھی نہیں چاہے
گی کہ وہ الیکشن میں جائے۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابھی نئے الیکشن کی تاریخ پر
دھند باقی ہے جو چھٹنے پر ہی واضح ہو سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں:
اعظم
خان بھی وعدہ معاف گواہ بننے جا رہے ہیں؟
عثمان بزدار بڑی مشکل میں، نیب نے عدم تعاون پر کارووائی کا فیصلہ کر لیا
0 تبصرے