مولد نبی کریم ﷺ - شعب ابی طالب اور تاریخ کا ظالمانہ معاہدہ

مولد نبی کریم ﷺ -  شعب ابی طالب اور تاریخ  کا  ظالمانہ معاہدہ

 

مولد نبی کریم ﷺ -  شعب ابی طالب اور تاریخ  کا  ظالمانہ معاہدہ

 

مسعی ٰ(سعی کرنے کی جگہ ) کے باب الاسلام سے باہر نکلیں تو قدیم دور میں یہاں محلہ کوشاشہ ہوا کرتا تھا۔ اس محلے کی بڑی فضیلت ہوا کرتی تھی کیونکہ اس محلے میں دارار قم بھی واقع تھا جہاں مسلمان ابتدائی دور میں چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے اور آنحضورﷺ نو مسلموں کی تربیت کیا کرتے تھے۔ اس دار ارقم میں حضرت عمر مسلمان ہوئے ۔ باب الاسلام سے نکلنے کے چند گز بعد ہی ایک بڑا مشہور بازار سوق الیل ( رات کا بازار ) شروع ہو جاتا تھا۔ اس سوق الیل کے ارد گرد بڑے تاریخی مکانات تھے ۔ حضرت علی کی رہائش اس بازار کے تقریبا کنارے پر تھی ۔بائیں ہاتھ جہاں آجکل ہاتھ رومز بنے ہوئے ہیں یہاں کہیں ابو جہل کی رہائش گاہ تھی۔ سوق الیل کے تقریباً آخری کونے میں ایک دو منزلہ عمارت کھڑی ہے جس کے چاروں طرف کھڑکیاں اور روشندان بنے ہوئے ہیں۔ حرم کی جانب اس عمارت میں داخلے کیلئے ایک آہنی دروازہ ہے۔ یہ عمارت مسجد حرام سے تقریباً ۴۰۰ گز کے فاصلے پر ہے اس عمارت پر مکتبہ مکتہ المکرمہ " کا بورڈ آویزاں ہے ۔ یہ ہی وہ جگہ اور گھر ہے جہاں اس ہستی نے جنم لیا جس نے کائنات کو رُشد و ہدایت کے دور کے آغاز کا مژدہ سنایا۔ یہ ہی وہ گھر ہے جہاں آپ ﷺ نے پہلی سانس لی تو ایران کے شہنشاہ کسری ٰکے محل میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس کے ۱۴ کنگرے زمین پر گر گئے۔ جو اس بات کا اعلان تھا کہ اب قیصر و کسریٰ اور دوسرے بادشاہوں کا دور ختم ہوا۔ اس مبارک ہستی کی ولادت باسعادت ہو چکی ہے جس کی ایک دنیا منتظر تھی۔

 

اس گھر کے ارد گرد بنو ہاشم کے بیشتر لوگ آباد تھے۔ اسی گھر کے عقب میں شعب ابی طالب واقع ہے جو بنو ہاشم کی موروثی جائیداد تھی ۔ اسی  شعب ابی طالب میں قریش نے سماجی بائیکاٹ کے نام پر بنو ہاشم کے مردوں ،عورتوں اور بچوں کو تقریبا تین سال تک محصور رکھا گیا۔ آپ ﷺ ہجرت تک اس گھر میں مقیم رہے۔ آپ کی مدینہ روانگی کے بعد آپ کے چچازاد بھائی حضرت عقیل بن ابی طالب کے زیر استعمال آگیا اور انہوں نے اسے فروخت کر دیا۔ فتح مکہ کے بعد آنحضور ﷺ جب مکہ آئے تو یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ آپ کہاں رہائش رکھیں گے ۔ آپﷺ سے پوچھا گیا کہ کہاں قیام فرما ئیں گے تو آپ نے فرمایا کہ کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی مکان چھوڑا ہے۔ پھر آپ نے مقام حجون میں اپنا  خیمہ لگوایا( خیمے  والی جگہ حضرت خدیجہ کی قبر کے قریب ہے ) حضرت عقیل سے یہ مکان خرید کر حضرت امیر معاویہ نے مسجد بنادی۔ حجاج بن یوسف کا دور آیا تو ان کے بھائی محمد بن یوسف ثقفی جو یمن کے گورنر تھے نے یہ جگہ خریدی اور اسے اپنے مکان "بیضا"  کا حصہ بنادیا اور 120ہجری تک یہ مکان دار یوسف کہلا تارہا۔۱۷۱ ہجری میں خلیفہ ہارون الرشید کی والد ہ حج کو آئیں تو انہوں نے مولد نبی ﷺ کو دار یوسف سے الگ کر دیا اور یہاں مسجد بنادی اور زقاق ( گلی کا نام ) تک پختہ راستہ بنوا دیا۔ ۵۷۹ ہجری میں خلیفہ ناصرالدین  نے مولد النبی کو پھر تعمیر کرایا۔ ابن جبیر اندلسی اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں "یہاں خوشنما اور نادر مسجد بنی ہوئی ہے اس میں طلائی کام ہوا ہے جس زمین کو ولادت کے وقت جسم اطہر نے مس کیا اس کے گرد چاندی کا حلقہ ہے"۔

 

انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اکرمﷺ کی جائے پیدائش کا مقام حوض کی طرح تین بالشت چوڑا ہے اس کے درمیان ایک سبز پتھر دو تہائی بالشت چاندی کے حلقے میں جڑا ہوا ہے۔ اس کی وسعت مع چاندی کے حلقے کے ایک بالشت ہے۔ اس مقام کے سامنے بہت خوشنما محراب ہے۔ اس پر طلائی کام ہے۔ اس کے بعد وقتاََ فوقتاََ یمن  اور مصر کے سلاطین اس کی مرمت کراتے رہے۔ ۹۲۳ ہجری میں سلطان سلیم کے زمانے میں خطہ حجاز جب آل عثمان کے قبضے میں آیا تو سلطان سلیمان نے ۹۳۵ ہجری میں مقام ولادت پر گنبد تعمیر کر ایا ۔ ۹۶۳ ہجری میں عثمانی سلطان نے سونے کی قندیل مولد النبی ﷺکیلئے بھجوائی ۔ ۱۰۰۹ ہجری میں سلطان محمد نے اس پر بڑا گنبد اور مینار تعمیر کرایا اور یہاں پر ایک مدرسہ قائم کیا۔ امیر سعود نے 1218 ہجری میں مکہ پر قبضہ کیا تو اس جگہ کو مسمار کر دیا گیا تا ہم ۱۲۳۲ ہجری میں ترکوں نے مکہ مکرمہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور مسجد کو دوبارہ بنوا دیا جسے ۱۳۴۴ ہجری میں گرا دیا گیا اور یہاں پہلے وزارت حج و اوقاف کا دفتر بنایا گیا اور اب چند سال قبل اسے لائبریری میں تبدیل کر دیا گیا۔

 

شعب ابی طالب:

شعب کے لفظی معنی قبیلہ کے ہیں۔ شعب ابی طالب سے مطلب ہے کہ وہ جگہ جوقبیلہ ابو طالب کی ملکیت ہے ۔ یہ سارا علاقہ پہاڑ کے دامن میں ایک گھاٹی میں ہے جو مولد نبی ﷺ کے عقب میں دائیں بائیں واقع ہے۔ قریش نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان حبشہ میں جا کر امن اور چین کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حبشہ کا بادشاہ ان کا محافظ بنا ہوا ہے ۔ حضرت عمر اور حضرت حمزہ چند دن کے فرق سے مسلمان ہو چکے ہیں اور اسلام نہ صرف طاقت پکڑ رہاہے بلکہ دیگر قبائل میں بھی پھیل رہا ہے۔ انہیں رنج تھا کہ حضرت محمدﷺ  ان کی ہر قسم کی پیشکش ٹھکرا چکے تھے۔ وہ ابو طالب کی پناہ میں تھے۔ انہیں یہ بات سمجھ میں آچکی تھی کہ اب آنحضور ﷺ کو قتل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت میں قبائل میں ایسی خونریزی ہوتی جس میں زیادہ نقصان ان کا ہی ہو سکتا تھا۔ لہذا وہ سب لوگ جمع ہوئے اور طویل بحث کے بعد وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ وہ مل کر ایک تحریری معاہدہ کریں جو بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف ایک متفقہ دستاویز ہو۔ یہ معاہد ہ در اصل قتل کا منصو بہ چھوڑ کر ظلم کا ایک نیا انداز تھا۔ جو سابقہ تمام مظالم سے زیادہ خوفناک اور سنگین تھا۔ اس معاہدے کی رو سے تمام مشرکین نے طے کیا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ ان سے کسی قسم کی خرید و فروخت ہوگی ۔ ان کے ساتھ کسی قسم کا میل جول نہ رکھا جائے گا۔ نہ وہ ان کے گھروں میں جائیں گے اور نہ انہیں اپنے گھروں میں آنے دیں گے ۔ ان سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کی جائے گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بنی ہاشم اور بنی مطلب خود رسول اکرم ﷺکو ( نعوذ باللہ ) خودقتل کر کے ان کے حوالے نہ کر دیں گے۔ یہ معاہدہ فیض بن عامر بن ہاشم نے تحریر کیا تھا۔ اسی شخص کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے بددعا کی اور اس کا وہ ہاتھ ہمیشہ کیلئے شل ہو گیا جس سے اس نے یہ معاہد ہ لکھا تھا۔ یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا اس معاہدے کے نتیجے میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کے تمام افراد خواہ وہ مسلمان تھے یا غیر مسلم شعب ابی طالب میں محصور ہو کر رہ گئے ۔ ابو لہب اور اسکے خاندان نے اس معاہدے میں اپنے قبیلے کی بجائے مشرکین کا ساتھ دیا۔ مورخین کے مطابق معاہد ہ نبوت کے ساتویں سال محرم کی چاند رات کا واقعہ ہے۔ اس سوشل بائیکاٹ کے بعد وہ تمام سامان خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی جو مکہ میں فروخت کیلئے لایا جاتا تھا کفار سے فوراََ بلکہ زائد دام ادا کر کے خرید لیتے تاکہ بنی ہاشم و بنی مطلب نہ خرید لیں ۔ اس صورتحال میں محصورین کی حالت خراب ہوتی چلی گئی ۔ انہیں درختوں کے پتے اور چمڑے ابال اور بھون کر کھانے پڑے۔ بچوں اور بڑوں کے فاقوں کا یہ عالم تھا کہ بھوک سے رونے کی آوازیں گھاٹی کے باہر بھی سنائی دیتی تھیں اور مشرکین رونے کی یہ آوازیں سن کر خوش ہوتے ۔ اس طرح تقریباً ۳ سال گزر گئے ۔ اسی دوران جب بھی حج کے دن آتے حضور ﷺ گھاٹی سے باہر آ کر بیرونی قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے رہتے۔ مشرکین کے ظلم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرتے رہتے کہ محصورین کا کوئی رشتہ دار انہیں کھانے پینے کی اشیاء نہ پہنچائے ۔ اس طرح کا ایک واقعہ تاریخ میں محفوظ ہے کہ حکیم بن خرام جو حضرت خدیجہ کے سگے بھتیجے تھے وہ کبھی کبھی چھپ چھپا کر اپنی پھوپھی کو گیہوں و دیگر اجناس بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ابو جہل نے انہیں پکڑ لیا۔ حکیم بن خرام نے کہا کہ مجھ سے  یہ نہیں ہوتا کہ  خود تو عیش و آرام سے رہوں اور میری پھوپھی بھوک سے تڑپتی رہے۔ یہ جھگڑا طول پکڑتا لیکن اس موقع پر ابوالجنتری نے مداخلت کی اور حکیم بن حزام غلہ محصورین کے پاس بھیجنے میں کامیاب ہو گئے۔

 

تاریخ کاظالمانہ معاہدہ  بالآخر چاک ہوا

معاہدے  کوتقریبا تین سال ہو گئے تو مشرکین کے وہ لوگ جو شروع ہی سے اس معاہدے سے بے زاری کا اظہار کرتےچلے آرہے تھے انہوں نے اکٹھے ہونا شروع کر دیا۔ اس کام کا اصل محرک قبیلہ بنو عامربن لوئی ہشام بن عمرو نامی شخص تھا۔ دوسب سے پہلے زہیر بن ابی امیہ  مخزومی کے پاس پہنچا۔ ( زہیر کی ماں عاتکہ عبد المطلب کی صاحبزادی یعنی ابو طالب کی بہن تھیں)  ہشام نے زہیر سے کہا کہ تمہیں یہ کس طرح گوارا ہے کہ خود تو مزے سے کھاؤ اور تمہارے ماموں بھوکے رہیں ۔ زہیر نے کہا کہ میں اکیلا کیا کرسکتا ہیں۔ ہشام نے کہا کہ اس کام میں اور لوگ بھی ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ وہ پہلے منعم بن عدی کے پاس گئے اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔  اس کے بعد یہ لوگ ابوالجنتری کے پاس گئے انہیں اپنا ساتھی بنایا۔  پانچواں شخص ذمعہ بن اسود تھاوہ بھی ان کے حامی بن گئے ۔ اب یہ طے  ہوا کہ وہ قریش کی محفلوں میں اس معاہدے کے خلاف آواز بلند کریں گے اس کے لئے زہیر کو ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے ان کی ایک محفل میں خطاب کیا کہ مکے  والو ہم کھانا کھائیں کپڑے پہنیں اور بنو ہاشم تباہ و برباد ہو۔ میں یہ ظلم نہیں دیکھ سکتا۔ اس ظالمانہ  اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کر دیا جائے۔ ابو جہل نے کہا کہ اسے پھاڑا نہیں جا سکتا جس پر ذمعہ بن اسود نے کہا جب یہ معاہدہ اہور ہا تھا ہم نے اس وقت بھی مخالفت کی تھی ابو الجنتر می نے بھی اسکی تائید کی، مطعم بن عدی نے بھی زہیر کا ساتھ دیا۔ پھر ہشام بن عمرو ان کے حق میں بول اٹھے۔ ابھی یہ تکرار جاری تھی کہ حضرت ابو طالب وہاں آگئے ان کی آمد کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالی نے رسول اکرم ﷺ  کو اس معاہدے کے بارے میں خبر دی تھی کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے کیڑے بھیج کر ساری تحریر ختم کر دادی ہے ۔ صرف اللہ کا نام باقی ہے۔ آنحضور ﷺ نے جب یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو وہ قریش کے پاس عین اس وقت آئے جب اس معاہدے کو ختم کرنے اور ا سے پھاڑنے کیلئے تکرار جاری تھی ۔ ابو طالب نے قریش کو جب یہ بتایا کہ ان کے بھتیجے نے معاہدے کے بارے میں بتایا ہے کہ معاہدے کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ جب خانہ کعبہ کے اندر جا کر دیکھا گیا تو واقعی معاہدے پر صرف اللہ کا نام باقی تھا باقی سب کچھ کیڑوں نے کھا لیا تھا۔ اس کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو گیا اور محصورین شعب ابی طالب سے باہر نکل آئے۔ اس طرح شعب ابی طالب وہ جگہ ہے  جہاں آپ ﷺ نے تین سال گزارے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

زمزم کی تاریخ، فضیلت اور آب زمزم کا کیمیائی تجزیہ

مقامابراہیم ، حجر اسود اور ملتزم – خانہ کعبہ کی تاریخ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے