عمران
خان کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا گیا ہے۔
اس بارے میں چودہ طبق روشن کر دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ جو ہم آپ کے گوش
گزار کرنے جا رہے ہیں۔
ایک
طرف معیشت پر چھائے بے یقینی کے سائے چھٹ رہے ہیں۔ روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا
ہے ۔ اسٹاک ایکسچینج ایک بار پھر تیزی سے اوپر کی جانب بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ عالمی
اداروں نے معیشت کی بہتری کے اشارے دیئے ہیں۔
تو
دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سیاسی مستقبل پر گھناگھور گھٹائیں چھا
رہی ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب پولیس نے
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو 9 مئی کے حوالے سے مزید 3 دہشتگردی کے مقدمات
میں نامزد کر دیا ہے۔ انہیں جناح ہاؤس(
کوکمانڈر ہاؤس لاہور) ، عسکری ٹاورز اور وزیراعظم کے کیمپ آفس ماڈل ٹاؤن پر حملوں
کے خلاف درج مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔
یوں ان کے خلاف لاہور میں درج
مقدمات کی تعداد 7 سے بڑھ کر 10 ہو گئی ہے۔جبکہ مجموعی طور پر پنجاب میں درج
مقدمات کی تعداد 19 ہو گئی ہے۔ اس میں اہم
بات یہ ہے کہ عسکری قیادت نے عمران خان کا نام لئے بغیر یہ دوٹوک انداز میں کہا ہے
کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث عناصر کو کسی طور معاف نہیں کیا جائے گا۔ اسی دوران پی ڈی ایم حکومت نے متعدد مواقع پر
برملا کہا ہے کہ 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ عمران خان ہیں۔
عمران
خان کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو گا یا نہیں اس بارے میں ابھی تک متضاد اطلاعات
موصول ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز روزنامہ "جنگ
" اور ڈیلی " دی نیوز" میں انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق
حکومت اور عسکری قیادت میں یہ اتفاق نہیں
ہو سکا کہ عمران خان کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے یا نہیں۔ تاہم
معروف صحافی سید عمران شفقت نے اپنے ایک وی لاگ میں کہا ہے کہ دونوں حلقو ں میں
عمران خان کیلئے کوئی گنجائش باقی نہیں اس لئے یہ کہنا کہ عمران خان سے کوئی ڈیل
ہو سکتی ہے قرین از قیاص ہے ۔ بلکہ انہوں نے انصار عباسی کی اس رپورٹ کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا ہے کہ سب فیصلے ہو چکے ہیں۔ بس صحیح وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کو فراہم کئے گئے اعداد و شمار کے
مطابق اس وقت تک 102 لوگوں کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیلئے فوج کے حوالے کیا گیا
ہے۔ ان 102 افراد میں خواتین اور بچے شامل نہیں ہیں۔ اس بارے میں اطلاعات آ رہی
ہیں کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان یہ اتفاق ہوا ہے کہ خواتین اور 18 سال سے
کم عمر کے طالبعلموں کے مقدمات ملٹری
کورٹس میں نہیں چلائے جائیں گے۔
اس
تناظر میں اگر دیکھا جائے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا۔ اس بارے میں
معروف صحافی حامد میر نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ الیکشن کب ہوں گے۔ میں
اس بارے میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ الیکشن اس وقت ہوں گے جب چیئرمین پی ٹی ائی کے
خلاف فیصلے ہو چکے ہوں گے۔ اب اگر دیکھیں کہ عمران خان کے خلاف مقدمات قائم تو بہت
ہوئے ہیں لیکن ابھی تک ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ خاص طور پر ملٹری کورٹس میں ان کے
خلاف مقدمات شروع نہیں ہوئے۔ اس کی وجوہات
تو حکومتی ذرائع نے انہیں بتائی ہے وہ یہ کہ ان مقدمات کی تحقیقات مختلف زاویوں سے
جاری ہے۔ ان میں سے جو کچھ لوگ جن سے تفتیش ہوئی ہے انہوں نے ایسے ایسے انکشافات
کئے ہیں کہ جب وہ منظر عام پر ائیں گے تو بہت سے لوگوں کے چودہ طبق روشن ہو جائیں
گے۔ یہ بیانات تحقیقاتی افسران کے روبرو
دیئے جا رہے ہیں اور اکثر ایسا ہو تا ہے ملزمان عدالت میں جا کر اپنے بیانات سے
منحرف ہو جاتے ہیں تو اس لئے پکا کام کرنے کیلئے جو یہ بیانات اکٹھے کئے جا رہے
ہیں انہیں ڈبل چیک کرنے کیلئے اور ان کے ساتھ ثبوت فراہم کرنے کیلئے جیوفینسنگ اور
دیگر جدید ذرائع کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ تاکہ کل وہ اپنی بات سے مکر نہ سکیں اور اگر مکر
بھی جائیں تو ثبوت موجود ہوں تاکہ بچ نکلنے کا موقع نہ رہے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ جو معلومات انہیں مل
رہی ہیں یا جو انہیں آف دی ریکارڈ بتایا جا رہا ہے ان کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے
9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کی تحقیقات سے بات مستحکم ہو رہی ہے کہ ان واقعات
کا سرا چیئرمین تحریک انصاف ہی کی طرف جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لازمی نہیں کہ
تمام مقدمات ملٹری کورٹس میں ہی چلیں بہت سے مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں
میں بھی چلائے جائیں گے۔ اور یہ مقدمات ان
مقدمات کی طرح نہیں ہوں گے جو عمران خان کی حکومت میں رانا ثنااللہ، شہباز شریف،
احسن اقبال یا دیگر کے خلاف درج کئے گئے تھے بلکہ پکا ہاتھ ڈالا جائے گا۔
حامد
میر نے شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے مزید انکشاف کیا کہ پانچ چھ لوگ ایسے
ہیں جو عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کریں گے یا گواہی دیں گے۔ ان میں سے کچھ
لوگ وہ ہیں جو 9 مئی کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف گواہی دیں گے اور
شہادتیں بھی فراہم کریں گے۔ جبکہ کچھ لوگ جو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف پریس
کانفرنس کریں گے وہ ان کے خلاف کچھ مزید انکشافات کریں گے۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے
کہ جو لوگ ان کے خلاف گواہی دیں گے اور کورٹ میں شہادتیں فراہم کریں گے وہ زیادہ
خطرناک ثابت ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
نواز
شریف واپس کب آئیں گے، الیکشن کب ہوں گے، سہیل وڑائچ کے تازہ ترین انکشافات
اعظم
خان بھی وعدہ معاف گواہ بننے جا رہے ہیں؟
0 تبصرے