فیک
نیوز کا طوفان اور قومی میڈیا کا کردار
تحریر:
فاروق شہزاد ملکانی
پاکستان
میں خاص طور پر پچھلی ایک دہائی سے فیک
نیوز کا طوفان بپا ہے ۔ چہار جانب فیک نیوز نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اب تو بات
یہاں تک
آن پہنچی ہے کہ ایک
حساس انسان سب لوگوں کو جھوٹا سمجھنا شروع ہو گیا ہے ۔ جبکہ عام آدمی اپنے مؤقف سے
قریب یا اپنی پسند کی خبر کو سچا اور ناپسندیدہ خبر یا سٹوری کو جھوٹ سمجھتا ہے
اور کہتا بھی ہے۔ اس تمام تر طوفان بدتمیزی میں قومی میڈیا کا کردار بہت اہم ہو
چکا ہے مگر بدقسمتی سے قومی میڈیا اپنے اس کردار کو نبھانے سے قاصر ہے یا کسی ایجنڈے
کے تحت اس کو بڑھاوا دینے میں ملوث ہے۔ چونکہ میرا تعلق بھی صحافت سے ہے اور ایک
مؤقر ادارے روزنامہ نوائے وقت میں ایک علاقائی نامہ نگار کے طور پر دو دہائیوں سے
اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں ۔ اس کے علاوہ روزنامہ اوصاف اور سوہنی دھرتی میں
بھی کام کر چکا ہوں ۔ میں اردوورلڈڈاٹ کام ڈاٹ پی کے کے ساتھ ساتھ مختلف ویب سائٹس
بھی چلاتا ہوں اور ان کیلئے لکھنے کے فرائض بھی انجام دیتا ہوں ۔ روزنامہ نوائے
وقت سمیت ان پلیٹ فارمز میں میں ہزاروں خبریں اور مضامین فائل کر چکا ہوں جو ان
پلیٹ فارمز پر چھپ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ہر وقت کسی خبر کی تلاش رہتی ہے۔ جب بھی کوئی اہم خبر دیکھنے یا پڑھنے کو ملتی ہے
تو اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔
گذشتہ
دنوں مظفر گڑھ کی تھرمل کالونی میں تین بہنوں کی گمشدگی اور بعدازاں ان کی سربریدہ
نعشوں کے ملنے کی خبر موصول ہوئی۔ تو اس معاشرے کے حساس انسان اور ایک صحافی ہونے
کے باعث مجھے یہ تجسس پیدا ہوا کہ جان سکوں کہ ایک ایسی کالونی جو ایک سرکاری
ادارے کی ملکیت ہے اور جہاں پر اس کے ملازمین ہی رہتے ہیں اور چونکہ ہمارا آنا جانا
مظفرگڑھ ہو یا اس سے قبل ملتان تو یہی وہ راستہ تھا جس کو ہم استعمال کیا کرتے
تھے۔ تو ہم دیکھا کرتے تھے کہ اس کالونی کے گیٹ پر ہر وقت سیکیورٹی آفیشل موجود ہوتے تھے اور چیکنگ پوائنٹ بھی قائم
ہے جس طرح عمومی طور پر کسی بھی سرکاری کالونی یا ادارے کے گیٹ پر ہوتا ہے ہم آتے
جاتے دیکھتے تھے کہ اندر جانے والوں اور باہر آنے والوں کی چیکنگ ہو رہی ہوتی تھی اس کالونی سے یہ بچیاں
کیسے غائب ہوئیں اور پھر گھر کے ساتھ واقع ایک غیر آباد کوارٹر میں ان کی نعشیں
کیسے پائی گئیں۔ اس تجسس کیلئے قومی نیوز چینلز اور سوشل میڈیا کھنگال ڈالا لیکن
کہیں سے بھی کوئی مصدقہ خبر تلاش نہ کر پایا ۔ ہر چینل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم
سے نت نئی کہانیاں گھڑ کر صارفین تک پہنچائی جا رہی تھیں۔ پھر یہ ہوا کہ مصدقہ خبر کی تلاش کا میرا سفر دوسرے روز تک جا پہنچا کہ آج
کے اخبارات میں مجھے کوئی درست خبر دیکھنے کو ملے گی اور میں جان پاؤں گا کہ ایک
سیکیورٹی آفیشل کی تین بچیاں آخر کس طرح
اور کیونکر کسی شقی القلب کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اب یہ میرا گمان تھا کہ
قومی اخبارات جن کی جائے اشاعت مظفرگڑھ سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ملتان میں
ہے اور اگر بیچ میں دریائے چناب واقع نہ ہوتا تو یہ بھی راولپنڈی اور اسلام آباد
کی طرح جڑواں شہر کہلاتے،میں درست اور تصدیق شدہ خبر دیکھنے کو ملے گی اور تمام
اخبارات میں ایک طرح ہی کی خبر دیکھنے کو ملے گی جس سے تصدیق ہو گی اصل میں یہ واقعہ ہوا کیسے؟
مگر جب میں ملتان سے چھپنے والے قومی اخبارات
کے ای پیپرز پڑھنے کیلئے ان کی ویب سائٹس پر گیا تو تمام اہم قومی اخبارات "
نوائے وقت" ، "جنگ" ، "خبریں" اور دیگر پر الگ الگ الف
لیلائیں پڑھنے کو ملیں۔ ان اخبارات کو پڑھنے کے بعد میرے اندر جو الجھن تھی وہ کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔
یہ تو ایک واقعاتی اور حادثاتی خبر تھی جس پر قارئین کی تشفی کیلئے
ہمارے قومی خبررساں اداروں تک نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ اور جن خبروں میں
اپنا زاویہ نگاہ دکھانے کا مارجن ہوتا ہے اس میں تو خبر کا
بالکل ہی کباڑا ہو جاتا ہے۔
اب
دیکھتے ہیں کہ ان تمام تر حالات کی وجوہات کیا ہیں۔ اس کی سب سے
بڑی وجہ غیر ذمہ دار نمائندگان کی فوج ظفر موج کا بھرتی کر لینا ہے۔ اب تو کسی بھی
ادارے کی نمائندگی حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں
کہ چند روپوں کا کھیل بن چکا ہے۔ آپ کسی بھی ادارے کے دفتر جائیں ان کے ہاتھ پر
چند ہزار رکھیں اور کچھ ہی دیر میں صحافی بن جائیں۔ اس ادرے کے ذمہ داران خواہ وہ
ادارہ چھوٹا ہے یا بڑا ، علاقائی ہے یا قومی کوئی بھی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ
کی تعلیم کتنی ہے، آپ خبر کیا الف ، ب بھی
لکھ سکتے ہیں کہ نہیں بس آپ چند ہزاد ایڈوانس اور ہر سال چند ہزار کے اشتہارات
دینے کا وعدہ کر لیں پھر آپ کو کوئی بھی صحافی بننے سے نہیں روک سکتا۔ اب آپ خود
سوچیں جس بندے کی واحد تلاش ہر سال چند قربانی کے بکرے ہوں جو اشتہار دے کر ادارے
کیلئے پیسے اکٹھے کرنے کا سبب بن سکیں وہ صحافی خبر کیسے تلاش کریں گے اور سب سے
بڑی بات کہ اس خبر کے اندر کا سچ کیسے ڈھونڈ پائیں گے۔
فیک
نیوز کے اس طوفان میں کم از کم قومی میڈیا
کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان فیک نیوز ہی نے ملک عزیز پاکستان
کو تاریخ کے اس نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے علاوہ میرا یہ نقطہء نظر بھی ہے
کہ فیک نیوز کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہماری ایک قومی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ جو
خبریں ہمارے قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں انہیں یوں بم بلاسٹ کی طرح پھوڑ
دینا بھی غیر ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ خواہ وہ بیان کسی وزیرمشیر کا ہی کیوں
نہ ہو۔ پہلے اس کی تصدیق متعلقہ شعبہ سے کی جانی ضروری ہے۔ اگر وہ ادارہ اس کی
تصدیق کرے تو تب ہی اسے شائع یا نشر کیا جائے بصورت دیگر اسے روکا جانا ہی ضروری
ہے۔
اس
کے علاوہ ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنا سیاسی بیانیہ بنانے کیلئے فیک نیوز گھڑ کر
پھیلانا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ یہ اگر صرف سوشل میڈیا تک ہی محدود ہوتا تو ٹھیک
تھا لیکن اس میں ہماراقومی میڈیا بھی پیچھے نہیں رہا۔ یہی فیک
نیوز اور سیاسی پروپیگنڈا قومی میڈیا پر بھی چلتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر
سادہ لوح شہری ان کو سچ مان کر نوسرباز سیاستدانوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اور جب
یہی سیاستدان کسی عہدے پر پہنچتے ہیں تو پھر جس طرح سے ہمارے ملک اور اس ملک کے اداروں
کی درگت بنتی ہے وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ پیسہ ضروری سہی لیکن اس ملک کی بقا بھی ضروری ہے اگر خدا نخواستہ کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو سوکھے
کے ساتھ ہرے بھی جل جاتے ہیں یہ بات تو ہر انسان جانتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
تہمت
لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے۔۔۔ تحریر:
فاروق شہزاد ملکانی
سمت درست کریں، غریبوں کو نوچنا چھوڑ دیں ... تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے