سمت درست کریں، غریبوں کو نوچنا چھوڑ دیں
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
حکومت
اگر واقعی اس ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے اور غربت کم کرنا چاہتی ہے
تو سب سے پہلے اپنی سمت درست کریں اور غریبوں کو نوچنا چھوڑ دیں۔ اگر یہ روش
برقرار رہی تو یاد رکھیں یہ مجرمانہ غفلت
اور چشم پوشی تمام معاشرے پر پہاڑ بن کر گرے گی۔ پھر غریب بچیں یا مارے جائیں لیکن
وہ حکمران طبقے کو کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ غریب عوام میں بڑھتا ہوا غصہ بیلٹ میں
ضرور نکلے گا اگر انہیں بیلٹ کا موقع نہ دیا گیا تو پھر سڑکوں ، چوک و چوراہوں پر یہ غصہ نکلے گا اور اگر یہ غصہ
واقعی نکل آیا تو اپنے ساتھ ملک و قوم سمیت (خاکم بدہن) بہت کچھ بہا کر لے
جائے گا۔
اب
آتے ہیں اس جانب کہ یہ غصہ آخر ہے کس بات کا تو آپ کو بتاتا چلوں حالانکہ اس بارے
میں ہر اس شہری کو معلوم ہے جس کے گھر بجلی اور گیس کے بل آتے ہیں یا جو روزمرہ
استعمال کی اشیاء اپنی حلال کی کمائی سے خریدتا
ہے ۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں اتنی بڑھا دی
گئی ہیں کہ ایک لاکھ سے کم آمدن والے کسی شہری کیلئے عذاب سے کم نہیں۔ جبکہ
پاکستان میں رہنے والے شہریوں کی سالانہ اوسط آمدن تیرا چودہ سو ڈالر ہے جو تقریباََ 4 لاکھ بنتی ہے اور اگر ماہانہ آمدن کا تخمینہ لگایا جائے تو
یہ تقریباََ ساڑھے 33 ہزار بنتی ہے۔ جبکہ پاکستان کی 22 فیصد آبادی ایسی ہے جن کی
آمدن 10 ڈالر یعنی 3000 روپے ماہانہ سے کم ہے۔ 39.3 فیصد آبادی ایسی ہے جن کی آمدن
3.2 ڈالر (900 روپے ) روزانہ سے کم ہے۔ اسی طرح 78.4 فیصد آبادی ایسی ہے جس کی
اوسط روزانہ آمدن 5.5 ڈالر (1600 روپے) سے کم ہے۔ اب ان اعداوشمار کو اگر سامنے
رکھا جائے تو اس ملک کی تقریباََ 80 فیصد آبادی ایسی ہے جو اگر ماہانہ صرف 200
یونٹس بجلی بھی استعمال کرے تو وہ یہ بل ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔
(نوٹ: یہ اعدادوشمار وکی پیڈیا سے لئے گئے ہیں آپ بھی ان کی ویب سائٹ پر جا
کر معلوم کر سکتے ہیں اس لنک پر کلک کریں)
یہ
سب حقائق آپ کے سامنے رکھنے کے بعد اب میں آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی جانب کہ اپنی
سمت درست کریں، غریبوں کو نوچنا چھوڑ دیں۔ اس کا مطلب بہت سے دوست سمجھ چکے ہوں گے
۔ اس کی مزید وضاحت اگر کروں تو وہ یہ ہے کہ ظالمانہ انداز سے بجلی اور گیس کے نرخ
بڑھانے کی بجائےاگر ہم ان کے ضیاع کو روک لیں تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل
ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت چاہیے کہ وہ بجلی کی چوری کو کنٹرول کرے اور اایسا حکومت آسانی سے کر سکتی ہے کیونکہ 80
فیصد بجلی کی چوری خود ملازمین کرتے ہیں یا ان کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی
ایسا میکینزم بنا لیا جائے جس سے وہ ملازمین کو کنٹرول کر لے کہ وہ چوری کرنا اور
کروانا چھوڑ دیں تو تب بجلی کی 80 فیصد چوری ختم ہو سکتی ہے۔ دوسرے سرکاری ملازمین
اور افسران کی مفت بجلی کی سہولت ختم کر دی جائے یا اگر سرکاری ملازمین کو مفت
بجلی دینا اتنا ضروری ہے تو سب ملازمین کیلئے مفت کر دی جائے چھوٹے بڑے ملازم کی
تخصیص ختم کر دی جائے۔ اس صورت میں یونٹس کی قید بھی نہ ہو صرف یہ ضروری ہو کہ وہ
ذاتی حیثیت میں اپنے گھر جتنی بجلی استعمال کریں گے اس کا بل نہیں آئے گا صرف ان
یونٹس کو ریکارڈ میں ضرور لایا جائے گا تاکہ لائن لاسز کی مد میں جو بوجھ عام صارف
پر منتقل کیا جاتا ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو تمام سرکاری ملازمین
چاہے وہ چپڑاسی ہے ، افسرہے یا کوئی جج یا جرنیل سب کو بجلی کا بل ادا کرنا ہو گا۔
تب ہی " مال مفت دل بے رحم " کے رویے سے چھٹکارا نصیب ہو سکتا ہے۔
اس
کے علاوہ بڑی سرکاری گاڑیوں سے چھٹکارا بھی ضروری ہے۔ چھوٹی گاڑیاں بھی صرف انہی افسروں کو دی جائیں جن کا کام
فیلڈ میں جانا ہوتا ہے۔ دیگر افسران کو جو صرف دفتر تک جاتے ہیں انہیں نہ دی
جائیں۔ فیلڈ میں جانے والے افسران کی گاڑیوں میں ٹریکر نصب کئے جائیں اور انہیں یہ
گاڑیاں مستقل نہ دی جائیں بلکہ فیلڈ میں جاتے وقت جو گاڑی دفتر میں دستیاب ہو اسے
لے جائے نہ کہ کوئی مخصوص گاڑی ۔ اس طرح
ان گاڑیوں کا استعمال محدود ہو جائے گا اور پٹرول اور ڈیزل کی مد میں چوری اور گاڑیوں کا بے دریغ استعمال بھی ختم ہو جائے
گا۔
اب
آتے ہیں حکومتی عہدیداروں کی جانب تو اس کیلئے بھی یہی اصول مدنظر رکھا جائے صرف
غیرملکی مہمانوں کیلئے بڑی گاڑیوں کو استعمال کیا جائے باقی تمام عہدیدار 1300 سی
سی سے زائد گاڑی استعمال کرنے کے مجاز نہ ہوں۔ وہ گاڑی بھی صرف پارلیمنٹ اجلاسوں
کے دوران پک اینڈ ڈراپ کیلئے استعمال ہوں باقی اوقات وہ گاڑیاں حکومت کے شعبہ
ٹرانسپورٹ کے پاس رہیں۔ ان پر بھی ٹریکر نصب ہوں اور سختی سے احکامات دیئے جائیں کہ
جس گاڑی کا ٹریکر خراب ہو اسے اس وقت تک استعمال نہ کیا جائے جس وقت تک اس کا
ٹریکر درست نہ کرا لیا جائے۔ وزراء اور
مشیروں کی تعداد محدود رکھی جائے ان عہدوں کی تعداد کا تعین بھی کر لیا جائے جو
زیادہ سے زیادہ دو سے ڈھائی درجن سے کسی صورت زائد نہ ہو جس وزیراعظم کو زیادہ
مشیروں کی ضرورت ہو وہ اپنی جیب سے انہیں تنخواہیں اور مراعات دے کر ہائر کر لے۔ سیاسی رشوت کے طور پر کسی عہدے کی بندربانٹ نہ
کی جائے ۔ اس طرح یہ سیاسی عہدے خدمت کی غرض سے قبول کئے جاتے ہیں مراعات اور
تنخواہیں لینے کیلئے نہیں ۔ اس لئے ان عہدوں کی مدت کے دوران ہی کچھ مشاہرہ اگر
ضروری ہو تو سرکاری خزانے سے ادا کیا جائے ، عہدہ ختم ہونے کے بعد کسی بھی عہدیدار
کو خواہ وہ صدر ، وزیراعظم، وزیر یا مشیر ہو کوئی سہولیات یا پنشن ادا نہ کی جائے۔
اس
وقت پاکستان بے روزگاری کے مسئلہ سے دوچار ہے نوجوان نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے
خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ اس لئے اس وقت تک یہ لاء بنا دیا جائے کہ جب تک تمام
بےروزگاروں کو نوکریاں نہیں مل جاتیں تب تک کسی بھی ریٹائرڈ آدمی کو خواہ اس کا
تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اگر وہ اپنے محکمے سے پنشن اور مراعات لے رہا ہے اسے کسی
دیگر محکمے یا پرائیویٹ ادارے میں نوکری نہ دی جائے۔ اگر کسی غیر سرکاری محکمے کو
اس آدمی کی بہت زیادہ ضرورت ہے تو وہ اسے رکھ لے لیکن اس آدمی کو اپنی پنشن اور
مراعات واپس کرنا ہوں گی۔ اور وہ ادارہ جتنی تنخواہ اس ریٹائرڈ پرسن کو ادا کرے گا
اتنی ہی رقم وہ ہر ماہ قومی خزانے میں بھی جمع کرانے کا پابند ہو گا۔
اسی
طرح یہ ضروری ہو کہ ججز، مسلح افواج کے کیپٹن سے زائد عہدے کے افسران، اور گریڈ 17یا زائد کے انتظامی افسران کے خونی
رشتہ دار اور وہ خود (ریٹائر ہونے کے بعد بھی) کسی صورت سیاست میں حصہ نہیں لے
سکتے۔ اگر سیاست میں حصہ لینا ضروری ہو تو انہیں ملازمت سے بغیر کوئی مراعات اور
پنشن لئے استعفیٰ دینا ہو گا اس کے بعد وہ
سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح یہ
بھی قانون بنایا جانا ضروری ہے کہ جب تک کوئی جج یا جرنیل اور بڑا انتظامی عہدیدار
اپنے عہدے پر موجود ہے تب تک اس کا کوئی خونی رشتہ دار کسی بھی کلیدی عہدے پر
تعینات ہونے کا اہل نہ ہو گا۔
مجھے
یقین ہے کہ ایسا نہ ہو پائے گا کیونکہ یہی وہ فیصلے ہیں جو حقیقت میں مشکل فیصلے
ہیں جو کسی بھی حکمران کو کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ باقی بجلی ، گیس، پانی اور بالواسطہ ٹیکسز میں
اضافہ تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن عوام کے سامنے ٹسوے بہائے جاتے ہیں کہ ایسا کرتے
ہوئے انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے یہ مشکل فیصلہ انہیں کرنا پڑ رہا ہوتا ہے لیکن سب
جانتے ہیں کہ یہ آسان فیصلے ہوتے ہیں کیونکہ مرے ہوئے کو مارنا اور غریب کو ذلیل
کرنا کتنا آسان ہوتا ہے سب جانتے ہیں۔ لیکن
چونکہ ووٹر کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ضروری ہوتا ہے اس لئے بڑے بڑے ڈائیلاگ بولے
جاتے ہیں اور ہم لوگ بھی کتنے بھولے ہوتے ہیں ان ڈائیلاگوں کے سحر آ بھی جاتے ہیں
اور انہی لٹیروں اور نوسربازوں کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان کیلئے سب کچھ
قربان کرنے کیلئے تیار بھی ہو جاتے ہیں۔ ویسے ایک بات اور بھی ہے کہ اس تبدیلی کیلئے عام
آدمی کو بھی اپنے ساتھ مخلص ہونا پڑے گا ۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ ایلیٹ
کلاس کا پاکستان ہے لہذا سسک سسک کر مرتے رہیں
کتابیںپڑھیں اور پیسے کمائیں: آسان طریقے سے آن لائن پیسے کمائیں
0 تبصرے