اعظم
خان بھی وعدہ معاف گواہ بننے جا رہے ہیں؟ یہ ہے وہ سوال جو اس وقت وفاقی
دارالحکومت سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے درمیان بحث کا سبب بنا ہوا ہے۔ کیونکہ
اس وقت اسلام آباد میں یہ افواہ زور شور سے پھیل رہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی
عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان بھی عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ
بننے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اعظم خان سامنے آ کر عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کریں
گے۔ جبکہ بعض کے مطابق وہ اپنا بیان کورٹ آف لاء میں جمع کرائیں گے اور جب ان کی
گواہی کی ضرورت ہو گی انہیں بلا لیا جائے گا۔ وعدہ معاف گواہ بننے کا یہ عمل کیسے
مکمل ہوتا ہے یہ تو بعد کی بات ہے اور ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اصل اور اہمیت کی بات تو یہ ہے کہ وہ وعدہ معاف
گواہ بنتے ہیں یا نہیں؟
اگر
یہ افواہیں واقعی خبر میں تبدیل ہوتی ہیں تو یہ واقعی میں سابق وزیراعظم عمران
خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور دیگر اہم عہدوں پر تعینات لوگوں کیلئے بہت ہی
تشویش کی بات ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اعظم خان کی گواہی بہت سے لوگوں کیلئے پریشان کن
ثابت ہو سکتی ہے۔ اعظم خان سابق وزیراعظم عمران خان کے صرف پرنسپل سیکریٹری ہی
نہیں تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سے معاملات میں بہت ہی قریب سے شامل بھی تھے۔
بقول معروف صحافی اور اینکر پرسن سید طلعت
حسین کے پرنسپل سیکریٹریز کی عمومی طور پر تین اقسام ہوا کرتی ہیں۔ جن میں ایک وہ
ہوتے ہیں جو کام کرتے ہیں، دوسرے وہ جو مل کر کام کرتے ہیں جبکہ تیسرے وہ ہوتے ہیں
جو مل جل کے کام کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے جو
کام کرتے وہ بیوروکریسی کے عمومی رویے کی طرح وہ اپنے ذمے یا دائرہ اختیار میں آنے
والے کام تھرو پراپر چینل کام کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو مل کر کام کرتے ہیں
، یہ بیوروکریٹ اپنے اختیارات سے بڑھ اپنے باسز کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ تیسری
قسم والے مل جل کر کام کرتے ہیں۔اس قسم کے بیوروکریٹ بھی کچھ اضافی تگ و دو کر کے
اپنے باسز کو سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں اور ان کے سیاہ و سفید میں ان کے حصہ دار
بھی ہوتے ہیں۔ ایسا کئی بار محسوس ہوا اور
جو باتیں باہر آتی رہیں اس سے لگتا ہے کہ اعظم خان اسی تیسری قسم کے بیوروکریٹ
دکھائی دیتے ہیں۔ اس کیلئے ایک مثال تو سائفر کے حوالے سے آنے والی آڈیو لیک سے
بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ اعظم خان ، سابق وزیراعظم کے ساتھ اس کو مینج کرنے کیلئے
برابر کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس آڈیو لیک میں واضح سنا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے
ساتھ جو دوسری آواز ہے وہ اعظم خان کی ہے اور وہ کس طرح اس سائفر سے کھیلنے کی
پلاننگ میں شریک ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے مسئلہ پر
بھی اگر دیکھیں تو اس میں بھی اعظم خان کا کردار واضح ہوتا نظر آتا ہے۔
اب
اس طرح ہم اگر اس تمام پس منظر کو سامنے رکھ کر غور کریں تو یہ واضح ہوتا نظر آتا
ہے کہ اگر اعظم خان وعدہ معاف گواہ بن گیا تو پھرعمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ
محمود قریشی، اسد عمر اور پی ٹی آئی کی
تمام سینئر لیڈرشپ اور سابق حکومت کے سینئر عہدیداروں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
عثمان
بزدار بڑی مشکل میں، نیب نے عدم تعاون پر کارووائی کا فیصلہ کر لیا
پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری، وعدہ معاف گواہ بھی مل گئے، حکومت کی بڑی چال
0 تبصرے