تحریک انصاف ، باغ جناح سے جناح ہاؤس تک
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
عمران
خان اور تحریک انصاف کا سیاسی سفر ویسے تو 1996 میں شروع ہوا تھا۔ لیکن اگر دیکھا
جائے تو تحریک انصاف کا حقیقی جنم اکتوبر 2011 میں باغ جناح (مینار پاکستان) کے
جلسے سے ہوا تھا۔ جس کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کو محسوس ہوا تھا کہ عمران خان کو
اب تیسری سیاسی قوت کے طور پر متعارف کرانے کا بیڑا اٹھا لیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کے
اس جلسہ کے پیچھے موجود ہاتھ سب کو نظر آ رہے تھے ۔ حالانکہ یہ ہاتھ 1994 سے ہی ان
کے پیچھے موجود تھے مگر اب تک انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔کیونکہ وہ ہاتھ
اب بڑے بڑے گھروں کی غلام گردشوں سے نکل کر عوام میں پہنچ چکے تھے اور تحریک انصاف
اور عمران خان کی کامیابی کیلئے کمربستہ ہو چکے تھے۔
طاقتور
ہاتھوں نے جب یہ ٹھان لیا کہ اب تحریک انصاف کو بڑی سیاسی جماعت اور عمران خان کو
بڑا سیاسی لیڈر بنا کے ہی چھوڑنا ہے تو پھر اکتوبر 2011 کو باغ جناح میں ایک بڑے
سیاسی شو کا بندوبست کیا گیا۔یہ بلاشبہ سیاسی تاریخ کا ایک بڑا شو تھا۔ اب آپ خود
سوچیں کہ جو جماعت 2008 کے جنرل الیکشن میں صرف چند حلقوں تک محدود تھی وہ اتنا
بڑا سیاسی شو کیسے اسٹیج کر پائی اور اس شو کیلئے اٹھنے والے کروڑوں روپے کے
اخراجات برداشت کر پائی۔ اگرچہ اس جلسے
میں چند قدآور شخصیات نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس جلسے کے بعد
تو جیسے تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں کے جہاز چل پڑے جیسے 2018 کے الیکشن کے
بعد آزاد ارکان اسمبلی کو تحریک انصاف میں شامل کرانے کیلئے جہانگیر ترین کا جہاز
اڑان بھرتا رہا۔
2011
میں باغ جناح میں بڑا سیاسی شو کرانے والوں نے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے
کیلئے متعدد بندوبست کئے۔ ان بندوبستوں میں سب پہلا بندوبست تھا وہ فنڈز کا تھا۔
اس کیلئے فنانسرز جنہیں اے ٹی ایمز کا نام دیا گیا کا بندوبست کیا گیا۔ بڑے
کاروباری لوگوں اور اداروں کو فنڈز کی فراہمی پر مجبور کیا گیا۔ جن میں سے کچھ خود
بخود سامنے آ کر اس کا اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے اربوں روپے فراہم کئے۔
ذہن میں رہے کہ یہ اعتراف کرنے والے زیادہ تر وہ ہیں جن کا سیاست سے براہ راست
تعلق ہے۔ غیر سیاسی فنانسر شاید کبھی بھی سامنے آ کر اعتراف نہ کریں کیونکہ ان کے
مفادات کاروباری ہیں جو نہیں چاہتے کہ وہ ایسی باتیں کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی
مار لیں۔ اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کاروباری لوگ مختلف اوقات میں دیگر سیاسی
جماعتوں کو بھی فنانس کرتے رہے ہیں اور اس کے بدلے میں وہ مفادات بھی حاصل کرتے رہے
ہیں۔
دوسرا
بندوبست جو کیا گیا وہ عدالتی بندوبست تھا۔ جس کا بھانڈا باغی جاوید ہاشمی نے داغی
جاوید ہاشمی بن کر پھوڑ دیا تھا۔ جاوید ہاشمی نے سرعام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
بتایا تھا کہ عمران خان نے بہت سے دیگر رہنماؤں کی موجودگی میں انہیں بتایا تھا کہ
آنے والا چیف جسٹس ان کا اپنا ہے وہ آ کر ہمارے لئے کام کرے گا اور پھر ہمیں کوئی
بھی نہیں روک پائے گا۔ اس کے علاوہ عمران خان دھرنے کے دنوں میں اپنی تقاریر میں
امپائر کی انگلی کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔ اب آپ خود سوچیں کہ اس انگلی میں بھی کوئی نہ
کوئی جادو تو تھا۔ جو ہر وقت اٹھنے کو بے تاب تھی۔ اس کے علاوہ ہائر اور لوئر
جوڈیشری میں بھی بندوبست کئے گئے جو بعد ازاں اپنا رنگ دکھاتے رہے اور اب تک یہ
رنگ دکھنے میں آ جاتے ہیں۔
2011
کے بعد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی بندوبستی نظام کے تحت لایا گیا۔ ایک
خاص بیانیہ بنانے کیلئے ان کا استعمال کیا گیا۔ 2014 کا دھرنا ہی لے لیں بعض اوقات
تو خان صاحب کے ساتھ چند رہنما اور انتظامیہ کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا تھا مگر قومی
میڈیا براہ راست دھرنے کی کوریج دکھا رہا ہوتا تھا اور عمران خان کے خالی کرسیوں سےخطاب کو
بھی لاکھوں لوگوں سے خطاب میں تبدیل کر کے دکھا رہا ہوتا تھا۔ اب آپ خود
سیانے ہیں اگر ایسا ہو رہا تھا تو کسی بندوبست کے بغیر کیسے ممکن تھا۔ اسی طرح
سوشل میڈیا پر بیانئے کی جنگ جیتنے کیلئے بھی سوشل میڈیا ورکرز ہائر کئے گئے ۔
سوشل میڈیا سیل بنائے گئے ۔ اس کیلئے ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔
اسی
طرح بیوروکریسی میں انتظامی بندوبست کیا گیا۔ تعاون کرنے والے لوگوں کو اہم عہدوں
پر تعینات کیا گیا۔ تعاون نہ کرنے والوں کو خوفناک انجام سے ڈرایا گیا۔ اس کیلئے
احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے افسران کے خلاف انتقامی کارووائیاں کر کے مثال
بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب ببانگ
دہل یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ انہیں سسٹم کے اندر سے حمایت حاصل ہے انہیں خبریں
پہنچائی جاتی ہیں۔ ایسا اسی بندوبست کے باعث ہی ممکن ہو پایا ہے۔
تحریک
انصاف کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے چھوٹے گروہوں اور پارٹیوں کو متحرک کیا
گیا۔ گروہی اور مذہبی سیاست کو فروغ دیا گیا اور ایسا ماحول بنایا گیا کہ دونوں
بڑی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے خلاف مذہب اور ملک دشمن کا بیانیہ ترتیب دیا
گیا اور پھر ان چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے آزاد چھوڑ
دیا گیاتاکہ یہ گروہ اور پارٹیاں مخالف ووٹ کو تقسیم کریں۔ آپ خود ہی 2018 کے
الیکشن کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح سے ان سیاسی جماعتوں نے پی ٹی آئی کی
جیت میں کردار ادا کیا۔
عمران
خان کی بین الاقوامی سطح پر بھی امیج بلڈنگ کیلئے تمام ذرائع اور وسائل جھونک دیئے
گئے۔ لابنگ فرمز ہائر کی گئیں۔ سب اچھا ہے کا ڈھول پیٹا گیا۔ مشرق و مغرب کیلئے
آئیڈیل لیڈرشپ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اوورسیز پاکستانیوں میں انہیں دیوتا کے روپ
میں پیش کیا گیا۔
اسی
طرح انتخابی نظام میں ضروری بندوبست بھی کیا گیا۔ لوگوں کو جوق در جوق پی ٹی آئی
میں لایا ہی گیا اوپر سے یقینی کامیابی کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے۔
انتخابی عملے سے لیکر سیکیورٹی عملے تک سب
ایک منظم اور موثر بندوبست کے تحت ترتیب دیئے گئے۔ حتیٰ کہ پھر بھی بات بنتی نظر
نہ آئی تو خودکار رزلٹ سسٹم آر ٹی ایس کو بھی
خاموش کرا کر مرضی کے نتائج حاصل کئے گئے۔ اس پر بھی بات نہ بنی تو ان
نتائج کے خلاف آنے والی درخواستوں کو بھی بلڈوز کیا گیا۔ جہاں پی ٹی آئی کے
امیدوار جیت گئے وہاں دوبارہ گنتی نہ ہونے دی گئی حتیٰ کہ آدھی گنتی ہو چکنے کے
بعد بھی گنتی رکوا دی گئی۔ جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار ہار گئے وہاں پر دوبارہ گنتی
کئی کئی بار کرا کر جیت کو یقینی بنایا گیا۔
اس
کے علاوہ ایک پیج کا بندوبست کیا گیا۔ حکومت بننے کے بعد باقاعدہ طور پر اداروں کی
جانب سے ان کی حکومت کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ صحافیوں سے ہاتھ ہولا رکھنے اور مخصوص
عرصہ تک کوئی بھی سوال کرنے سے روکا گیا اور یہ مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد مزید بڑھا
دیا گیا ۔ مختصر یہ کہ ہر طرح سے جائز و ناجائز حمایت کی گئی۔
اب
آتے ہیں اس جانب کہ عمران خان باغ جناح سے جناح ہاؤس( 9 مئی) تک کیسے پہنچے۔ تو
اگر میں موٹی موٹی بات کروں تو یہی وہ بندوبست تھے جو انہیں اقتدار میں لانے کیلئے
کئے گئے ، یہ ہی انہیں جناح ہاؤس تک لے آئے۔ کیونکہ ہر جگہ ان کی حمایت کی موجودگی
اور بے جا لاڈ پیار نے انہیں بگاڑ دیا تھا۔
ان تمام تر ناز برداریوں نے انہیں ناقابل تسخیر سوچ کا مالک بنا دیا۔ وہ یہ
سمجھنے لگے کہ وہ چاہے کچھ بھی کریں کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا اور پھر
وہ اس سوچ کے بھی مالک رہے ہیں کہ بیس، تیس ہزار لوگوں کو اداروں کے خلاف سڑکوں پر
لے آئیں تو ادارے لیٹ جاتے ہیں۔ اسی سوچ نے انہیں اس موڑ پر پہنچایا اور پھر 9 مئی
کے بعد کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ ایک اور وجہ بھی ہے کہ جب ان تمام تر ناز
برداریاں اور حمایتیں پیچھے سے کھسکنے لگیں تو خان صاحب تیش میں آ گئے اور غصے میں
آ کر ایک بلنڈر کر بیٹھے ۔ اب حالت یہ ہے کہ کسی سے بات چیت نہ کرنے کے سرعام
اعلانات کرنے والے عمران خان اب مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ لوگوں کو نجی
محفلوں اور جلسوں میں برے برے القابات سے مخاطب کرنے والے اب انہیں صاحب کہنے پر
مجبور ہو چکے ہیں۔
0 تبصرے