یونان کشتی حادثہ میں کونسا پاکستانی سیاستدان ملوث ہے؟

یونان کشتی حادثہ میں کونسا پاکستانی سیاستدان ملوث ہے؟
 

یونان کشتی حادثہ میں کونسا پاکستانی سیاستدان ملوث ہے؟

 

گذشتہ دنوں اطلاعات موصول ہوئیں کہ یونان کے نزدیک ایک کشتی ڈوب گئی ہے جس میں پاکستانی تارکین وطن بھی سوار تھے جن میں سے بیشتر جاں بحق ہو گئے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ سامنے آنے لگے کہ ان کے بیٹے یا عزیز رشتہ دار بھی اس کشتی سوار تھے۔ اب تک 71 کے قریب والدین سامنے آئے ہیں جنہوں نے یہ اقرار کیا ہے کہ ان کے بچے اس بدقسمت کشتی پر سوارتھےاور سہانے مستقبل کی تلاش میں یورپ کے مختلف ممالک جا رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس کشتی پر خوابوں کی تلاش میں جانے والے 400 کے قریب پاکستانی یونان کی سمندری حدود میں بے بسی کی موت مر گئے ہیں جبکہ 12 کے قریب پاکستانیوں کے بچ جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔

 

پاکستان کے معروف صحافی جاوید چودھری نے اپنے یوٹیوب چینل  این ٹی وی پر اپنے تازہ وی لاگ میں بتایا ہے کہ غیر مصدقہ اطلاعات(غیر مصدقہ اطلاعات اس تناظر میں کہ یہ تعداد تھوڑی بہت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے) کے مطابق یونان کی سمندری حدود میں ڈوبنے والی کشتی میں 750 کے قریب افراد سوار تھے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ جن میں 400 کے قریب پاکستانی، 200 کے قریب مصری اور 150 کے قریب شامی تارکین وطن تھے۔  بتایا جا رہا ہے کہ اس کشتی میں 150افراد  کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ اس میں 750 افراد ٹھونسے گئے تھے۔  زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں نے بتایا ہے کہ کشتی کے سب سے نچلے حصے میں پاکستانیوں کو گھسا کر باہر سے لاک کر دیا گیا تھا۔ جگہ کی کمی کے باعث لوگ ایک دوسرے کے اوپر بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے تھے۔ اوپر سے پانی اور غذا بھی فراہم نہیں کی جا رہی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کشتی ڈوبنے سے قبل ہی 13/14 کے قریب پاکستانی جاں بحق ہو چکے تھے۔

 

اب آتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ کا یہ نیٹ ورک کام کیسے کرتا ہے؟ جاوید چودھری کے مطابق یہ نیٹ ورک پاکستان کے مختلف علاقوں میں کام کر رہا ہے ، کچھ مین ایجنٹ ہوتے ہیں جن کے نیچے ان کے سب ایجنٹ یا ہرکارے کام کرتے ہیں  جو لوگوں کو بہلا پھسلا کر اور سوہانے خواب دکھلا کر پھنساتے ہیں ۔ اور ان سے 25 لاکھ سے 35 لاکھ کے درمیان رقم وصول کر کے انہیں یورپ بھجوانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ یہ سادہ لوح لوگ اپنی جمع پونجی اور اپنے بچے ان سمگلروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔  جو انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں اور کشتیوں میں بھر کر مصر کے راستے لیبیا پہنچاتے ہیں۔ لیبیا کے حالات یہ ہیں کہ وہاں پر جنگی ماحول ہے جہاں کے بہت بڑے حصے پر حکومت کا کنٹرول ہی نہیں ہے۔ یہاں پر بہت سے مصری انسانی سمگلنگ کا دھندہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ سات/آٹھ ہزار ڈالر لے کر لوگوں کو اٹلی اور پھر وہاں سے یورپ کے دیگر ممالک میں دھکیلنے کا کام انجام دیتے ہیں۔

 

یہ کشتی بھی انہی سمگلروں کے انتظام میں اٹلی لے جائی جا رہی تھی کہ یونان کی سمندری حدود میں آگے سے گرین سگنل نہ ملنے کے باعث رک گئی۔ اس دوران ان کے پاس خوراک اور پانی کا ذخیرہ بھی ختم ہو گیا۔ اسی اثنا میں کچھ بڑے جہاز بھی ان کے قریب سے گزرے اور انہیں  خوراک اور پانی فراہم کیا۔ ان جہازوں نے یونان کے حکام کو ان کے بارے میں بھی بتایا ۔ لیکن ان لوگوں نے ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کے گرد چکر لگا کر واپس آتے رہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ چاہتے ہوں کہ ایک بار کوئی بڑا وقوعہ ہو جائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جائے اور یہ سلسلہ رک جائے۔یوں یہ سانحہ وقوع پذیر ہو گیا۔ کشتی ڈوبنے کے بعد 104 کے قریب لوگوں کو بچا لیا گیا جن میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔

 

اب آپ کو بتاتے چلیں کہ اس سانحہ کے پیچھے کوئی پاکستانی سیاستدان بھی ملوث ہے کہ نہیں کیونکہ عمومی طور ایسا ہوتا آیا ہے کہ کوئی سانحہ ہو تو اس کے پیچھے کسی نہ کسی سیاستدان، بیوروکریٹ  اور دیگر بھاری بھرکم لوگوں کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اس وقت تک 14 ایجنٹوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جن دو مین ایجنٹ ساجد محمود اور وقاص احمد بھی شامل ہیں۔ ساجد محمود کا تعلق منڈی بہاؤالدین سے ہے۔ ساجد محمود کا تعلق بھی منڈی بہاؤالدین کے بہت اہم سیاستدانوں سے ہے جن کی وہ الیکشن میں پیسے سے حمایت اور مدد کرتے ہیں۔ ان کا تعلق کچھ بیوروکریٹس اور ایک سیشن جج سے بھی بتایا جا رہا ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں:

پاک ایران بارڈر، سمگلنگ سے جڑی زندگیاں

سو سے زائد بے روزگار نوجوان رزق کی تلاش میں سمندر میں ڈوب گئے مگر طاقتوروں نے ڈاکہ ڈال دیا 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے