پاک ایران بارڈر، سمگلنگ سے جڑی زندگیاں
پاک
ایران بارڈر سے ہونی والی سمگلنگ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے ایک عام پاکستانی سے
لے کر اعلیٰ پاکستانی سرکاری عہدیدار تک سب آگاہ ہیں۔ اس سمگلنگ کو روکنے کی بجائے سب نے اسے اپنی جیبیں بھرنے
کا ذریعہ بنایا ہوا ہے جبکہ کچھ لوگ اس
سے اپنی روزی روٹی بھی کماتے ہیں ۔ ایران سے پاکستان پٹرول و ڈیزل سے لے کر کھانے والے تیل اور دیگر
روزمرہ استعمال کی اشیاء بھی سمگل ہے۔
بی
بی سی اردو کے نمائندہ سحر بلوچ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سمگلنگ نیٹ ورک کی کہانی
کی ابتداء بلوچستان کے سرحدی علاقے ماشکیل سے ہوتی ہے۔ یہاں سے ایرانی سرحد تک
جانے کیلئے کوئی مخصوص روڈ نہیں ہے۔ دور دور تک پھیلے ریتلے علاقے میں کچے راستے
پر چلتے ہوئے زنباط (سمگلنگ کیلئے استعمال ہونے والی عمومی طور پر نیلے رنگ کی
گاڑیاں ) پاک ایران سرحد سے پٹرول و ڈیزل اور دیگر اشیاء ماشکیل تک بنائے گئے
مختلف ڈپوؤں تک پہنچاتے ہیں اور پھر وہاں سے مختلف گاڑیاں یہ اشیاء ملک کے دور
دراز علاقے تک پہنچاتے ہیں۔
یہ اشیاء
بلوچستان کے اکثر علاقوں میں تو دستیاب ہیں ہی اب تو یہ کراچی سے لے کر لاہور اور
راولپنڈی اسلام آباد تک میں تھوک کے حساب سے بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔
یہ
اشیاء کس طرح سمگل کی جاتی ہیں اور کون کون اس میں ملوث ہیں اور کہاں کہاں سے مل
سکتی ہیں یہ جاننے کیلئے بی بی سی اردو کا یوٹیوب چینل پر اس بارے میں رپورٹ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
سو سے
زائد بے روزگار نوجوان رزق کی تلاش میں سمندر میں ڈوب گئے مگر طاقتوروں نے ڈاکہ ڈال
دیا
عثمان
بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کس وجہ
سے ہوا؟گینگ آف 5 میں کون کون شامل تھا؟
0 تبصرے