ہم کہاں آ کھڑے ہیں، معصوم بچے بھی ہماری جہالت کا شکار ہو گئے ہیں۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

ہم کہاں آ کھڑے ہیں، معصوم بچے بھی ہماری جہالت کا شکار ہو گئے ہیں۔  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

آج دن کو ایک خبرسوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی جس میں بتایا گیا تھا کہ جام پور کے رہائشی رکشہ ڈرائیورعمران عزیز گوپانگ کا معصوم بچہ گزشتہ روز لاپتہ ہو گیا ۔ آج اس کی نعش کماد کے کھیت سے ملی۔ اطلاعات کے مطابق اس معصوم جان کے ساتھ پہلے زیادتی کی گئی اور بعدازاں مار کر نعش کماد کے کھیت میں پھینک دی گئی۔ اس صدمے اور دکھ سے نہیں نکلا تھا کہ تونسہ کے نواحی علاقے دائرہ دین پناہ سے اطلاع موصول ہوئی کہ بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑے اور ایک جاہل نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سات سالہ معصوم بچے کو فائر مار کر شہید کر دیا۔

 

ان دو واقعات کا میں نے صرف تذکرہ کیا ہے ورنہ ایسی خبریں آئے روز موصول ہوتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی ، مار کٹائی اور قتل کی خبریں قومی اور سوشل میڈیا کی سرخیوں میں دکھائی دیتی ہیں۔  یہ سب دیکھ کر انتہائی مایوسی اور دکھ ہوتا ہے کہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ جہاں چند سالہ معصوم بچے بھی محفوظ نہیں۔ ہماری وحشت اور بربریت کی انتہا ملاحظہ ہو کہ معصوم بچے اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں زندگی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ میں اسے کیا نام دوں ، وحشت بربریت جیسے لفظ بھی اس ظلم کے آگے مجھے بہت چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن بتائیے گا کہ کیا ہم مسلمان کہلانے کے بھی حقدار ہیں۔ اسلامی تعلیمات تو ہمیں اپنے مسلمان بھائی کو کانٹا چبھنے پر بھی بے چین ہو جانے کا سبق دیتی ہیں مگر ہم خود وحشی بن کر معصوم بچوں تک کو بھی اپنی حوس کا شکار بنا دیتے ہیں۔

 

  اس وقت مجھے فرط جذبات میں کیا کیا لکھنے کو دل کر رہا ہے مگر میں نہیں چاہوں گا کہ کچھ غلط لکھ دوں اور بعد میں مجھے پچھتاوا ہو لیکن  یہ بات سو فیصد درست ہے کہ اس بربریت میں جو بھی ملوث ہیں اگر میں انہیں درندہ بھی لکھوں تو یہ درندے توہین ہو گی۔ انسانیت اور ہمارا مذہب ہمیں یہ سب نہ سکھاتا ہے اور نہ ایسے عمل کو پسند کرتا ہے بلکہ ایسے عمل پر سخت سے سخت سزا بھی تجویز کرتا ہے ۔ مگر شومئی قسمت ہمارے ملک کے انصاف کے ایوانوں نے ان درندوں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ انصاف کےلئے نرخ مقرر کر رکھے ہیں ۔ جو جتنا بڑا مجرم ہے وہ اتنے زیادہ پیسے دے کر انصاف خرید لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے یہ درندے چند دن زندان میں گزار کر پھر کسی اور کا گھر اجاڑنے کیلئے کھلے سانڈ کی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔

 

قاضی بننا کبھی بہت ذمہ داری اور مشکل کام سمجھا جاتا تھا۔ نیک اور قابل ترین شخص بھی قاضی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے بہت مشکل سے آمادہ ہوتا تھا مگر ملک پاکستان میں تو یہ بڑے منافع کا کام بنا دیا گیا ہے۔ جج بننے کیلئے سفارشیں اور رشوتیں بانٹی جاتی ہیں۔ اور پھر جج بن کر لمبی دیہاڑیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ انصاف کے کھلے عام سودے کئے جاتے ہیں مگر نہ تو ندامت ہوتی ہے اور بدمزگی بلکہ کھلے عام بے شرمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مجرموں کی جنت اور شریف انسانوں کیلئے عذاب بن کر رہ گیا ہے۔ مظلوم ان انصاف کے سوداگروں کو بددعائیں ہی دے سکتے ہیں اور وہ یہ کام صبح شام کرتے ہیں مگر لگتا ہے خدا بھی ان ظالموں کیلئے رسی دراز ہی کرتا جا رہا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں  ، ایک دن یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ضرور آئیں گے اور یوم حساب ضرور ہو گا۔

 

یہ ضرور پڑھیں:

تین  مولوی وزیراعظم ہاؤس میں آ کرعجیب خواب سنایا کرتے تھے۔ فیصل واوڈا کے تہلکہ خیز انکشافات

خدارا فتنوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔۔۔  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے