تجزیہ: فاروق شہزاد ملکانی
دبئی
میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کی اندرونی
کہانی سامنے آ گئی ہے۔ ان ملاقاتوں میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی فیصلہ ساز
قیادت شامل ہے۔ ان ملاقاتوں یا مذاکرات میں پاکستان کی سیاست اور آنے والے عام
انتخابات کے حوالے سے اہم فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ اردو ورلڈ کے ذرائع کے مطابق ان
فیصلوں میں پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے قائدین کو بھی شامل رکھا جا رہا ہے
اور انہیں بھی ان فیصلوں سے متعلق اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔
دبئی
مذاکرات میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف، چیف آرگنائزر مریم نواز شریف شامل ہیں
جبکہ پیپلز پارٹی کے جانب سے سابق
صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق
ان مذاکرات کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستان کے مستقبل
اور پاکستانی سیاست کے حوالے بہت اہم فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان تاریخ
کے بہت ہی اہم موڑ سے گزر رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان آگے لے کر جانے کیلئے بہت ضروری
ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اہم
سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ رسہ کشی کی سیاست ملک کو خاص طور پر ملکی معیشت کو بہت
نقصان پہنچا رہی ہے۔ اسی لئے کہا جا رہا ہے
ان ملاقاتوں میں میثاق جمہوریت پارٹ 2 یا میثاق معیشت ترتیب دیا جا رہا ہے۔
"اردو
ورلڈ " ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں آئندہ الیکشن اور آئندہ حکومت ااور
سیاست کے حوالے سے مکمل روڈ میپ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ بہت سی باتوں پر اتفاق رائے
ہو چکا ہے۔ کچھ باتوں پر بہت جلد اتفاق ہو جائے گا۔ اس کے بعد جو باتیں عام کرنے
کی ضرورت ہو گی وہ میڈیا کے ذریعے بتا دی جائیں گی جبکہ کچھ باتوں کو
خفیہ(کانفیڈنشل) بھی رکھا جائے گا۔ کیونکہ یہ سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہو گا۔
اب
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان مذاکرات میں کن کن چیزوں یا معاملات پر اتفاق رائے
پیدا کیا جا رہا ہے۔
سب سے پہلے تو اس بات پر اتفاق رائے پیدا کیا جا
رہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پورے کرے یا قبل از وقت اسمبلی توڑ کر انتخابات میں
جایا جائے۔ تواس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسمبلی کچھ دن قبل توڑ کر الیکشن میں
جایا جائے گا اس طرح تمام اتحادیوں کو الیکشن مہم کیلئے زیادہ وقت مل جائے گا
کیونکہ قانون کے مطابق اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں الیکشن 90 دنوں میں کرانے کی شرط
ہے جبکہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کی صورت میں 60 دنوں میں الیکشن کرانا ضروری ہوتے
ہیں یوں اگر اسمبلی نے مدت پوری کی تو 13 اکتوبر سے قبل الیکشن کرانا ضروری ہو گا
جبکہ اسمبلی ٹوٹنے کی صورت میں یہ انتخابات نومبر تک چلے جائیں گے۔ یوں انتخابی
تیاریوں کیلئے تقریباََ ایک ماہ زیادہ ملے
گا۔ اس پر تو اتفاق ہو چکا ہے کہ اسمبلی کو توڑا جائے گااس کیلئے تاریخ بھی طے کر
لی گئی ہے لیکن اسے ابھی منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔
دوسرا
اہم نقطہ الیکشن کی تاریخ ہے جس پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ مگر اسے بھی عام نہیں
کیا جا رہا۔ اردو ورلڈ کے ذرائع نے اسے بتایا ہے کہ اس سلسلہ میں نومبر کے پہلے
ہفتے کے آخری دنوں یا دوسرے ہفتے کے
ابتدائی دنوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
تیسرا
جو اہم نقطہ ہے وہ ہے نگران حکومت اور نگران وزیراعظم کے ناموں پر اتفاق رائے کیا
جا رہا ہے۔ بہت سے ناموں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ جبکہ وزیراعظم کیلئے آدھ درجن
کے قریب ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ جن میں سے 3 نام شارٹ لسٹ ہو چکے ہیں۔ بہت
جلد کسی ایک نام پر اتفاق ہو جائے گا۔
اسی
طرح دیگر سیاسی جماعتوں جیسے استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے حوالے سے
بھی پالیسی طے کی جارہی ہے۔ اس پر ابھی اتفاق نہیں ہو سکا لیکن بہت سی باتیں طے
ہونے کے بہت قریب ہیں۔ جو یقینی طور پر بہت جلد طے ہونے کے قریب ہیں ۔
اسی
طرح ان مذاکرات میں پاکستان کے آئندہ کے روڈ میپ کے حوالے سے بھی بات چیت جاری ہے۔
کیونکہ جب آئندہ حکومت جب اپنا منصب سنبھالے گی تو اس کے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت
نہیں ہو گا۔ دونوں بری جماعتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کو مضبوط معیشت دینے کیلئے
صحیح راستے کا چناؤ بہت ضروری ہے۔ اس لئے
یہ باتیں پہلے سے ہی طے کر لی جائیں ۔ آئندہ کی خارجہ پالیسی، سی پیک ، ہمسایہ
ممالک، دوست ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ کس پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ان میں
سے بہت سے معاملات پر پہلے سے ہی اتفاق رائے ہو چکا ہے جبکہ کچھ باتوں پر اتفاق
رائے کو یقینی بنانے کیلئے بات چیت چل رہی ہے۔
یہ
بھی پڑھیں:
1۔ ہم
کہاں آ کھڑے ہیں، معصوم بچے بھی ہماری جہالت کا شکار ہو گئے ہیں۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
2۔ تین مولوی وزیراعظم ہاؤس میں آ کرعجیب خواب سنایا کرتے
تھے۔ فیصل واوڈا کے تہلکہ خیز انکشافات
0 تبصرے