اب سچ نہیں جھوٹ بھی جیت سکتا ہے۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

اب سچ نہیں جھوٹ بھی جیت سکتا ہے۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

اب سچ نہیں جھوٹ بھی جیت سکتا ہے۔

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

اب سچ نہیں جھوٹ بھی جیت سکتا ہے کیونکہ اب جنگیں ہتھیاروں سے نہیں سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہیں۔ کسی بڑی سے بڑی سپر پاور کو ہرانے کیلئے ہتھیاروں کی نہیں سوشل میڈیا پر پاورفل نمائندگی کافی ہے،  اس کیلئے آپ کے مؤقف کو سچا ہونا بھی ضروری نہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ کو کیسے کیسے غلط سبق پڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ لیکن اگر آپ تھوڑا سوچیں اور اپنے ہاتھ میں موجود موبائل اور اس میں انسٹال سوشل میڈیا ایپس کی طاقت کا ادراک کریں تو آپ بھی میری اس سوچ سے متفق ہوں گے۔

 

انسانی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہم بخوبی جان پائیں گے کہ مختلف ادوار میں مختلف طاقتور شخصیات لوگوں پر حکمران رہی ہیں۔ ابتداء میں جو شخص جتنا زیادہ طاقتور اور نڈر تھا وہ بادشاہ اور حکمران کہلانے کا حقدار قرار پاتا رہا۔ پھر اس کی جگہ مختلف ہتھیاروں نے بھی لے لی۔ جس نے اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے جدید ہتھیار بنائے وہ دوسروں پر حاوی ہوتا گیا۔  ان ہتھیاروں نے مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اپنائیں۔ اب تو اس قدر مہلک ہتھیار بھی معرض وجود میں آ چکے ہیں کہ ایک ہی حملے میں لاکھوں کی انسانی آباد ی  تباہ و برباد کی جا سکتی ہے۔ مطلب یہ کہ انسان نے جس طرح بربادی میں ترقی کی ہے اتنی آبادی میں خوشیاں بانٹنے میں نہیں کی۔  یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں انسان نے انسان کو برباد کرنے کیلئے مہلک سے مہلک ہتھیار بنائے  بلکہ بعض شیطان صفت  لوگو ں نے خیر کیلئے بنائی گئی ایجادات کو بھی تخریب کیلئے استعمال کیا۔ آپ بخوبی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو لوگ مثبت باتوں اور سہولیات کو بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے  استعمال کر سکتے ہیں وہ جھوٹ کو بھی سچ بنا کے پیش کرنے میں بھی کوئی  شرم محسوس نہیں کرتے ۔

 

بات جب عام ہتھیاروں سے ایٹم تک پہنچی تو یہ بربادی کی انتہا تھی۔ پھر ان عقلمندوں نے سوچا کہ دنیا کو زیادہ خاموشی سے کنٹرول کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جائے۔ میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا مخالف نہیں ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اسے ایجاد کرنے والوں کے ذہن میں بھی اس کا مثبت استعمال ہی ہوگا۔ لیکن پھر یہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ انہی منفی لوگوں کے ہاتھ چڑھنے کی دیر تھی کہ پھر انہوں نے اس کا بے رحمانہ استعمال شروع کر دیا اور سادہ لوح لوگ اس میڈیم پر آنے والی ہر بات کو سچ ماننا شروع ہو گئے۔ یوں یہ ذہن سازی کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ ایسا پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ اس کو سائبر وار کا نام دیا جاتا ہے۔

 

اسی سائبر وار سے بچنے کیلئے تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ملک چین نے گوگل، یوٹیوب، فیس بک ، ٹویٹر سمیت تمام ویب سائٹس اور ایپس جو دنیا کے دیگر ممالک سے اپریٹ ہوتی ہیں انہیں  اپنے ملک میں بین کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہ وہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نہیں ، وہاں سب کچھ ہے ، سوشل میڈیا ایپس، سرچ انجن ، ویڈیو پورٹل  سمیت سب انہوں نے خود بنائی ہیں اور وہ چین ہی سے آپریٹ ہوتی ہیں۔ یعنی چین ایٹمی ہتھیاروں سے لے کر ڈیجیٹل ہتھیاروں میں بھی خود کفیل ہے اسی لئے دنیا کی غیر اعلانیہ سپر پاور بن چکا ہے۔

 

جبکہ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ ہم ڈیجیٹل ہتھیار بھی کسی کے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ ہتھیار وہاں ہٹ ہوتے ہیں جہاں ان ہتھیاروں کے مالک چاہتے ہیں۔ ایسا کیسے ہوتا ہے  تو اس کی چھوٹی سے مثال دیتا چلوں کہ جو بات وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں وہ بڑی تعداد میں لوگوں کی ریکمنڈیشن  میں آنا شروع ہو جاتی ہے اور جو بات وہ چھپانا چاہتے ہیں وہ آپ کے سبسکرائبرز یا فالوورز کو بھی دکھائی نہیں دیتی ۔  اس تمام پراسس کو الگوردم کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ الگوردم بھی انسانوں کے کنٹرول میں ہی ہوتا ہے۔ جو اکاؤنٹس ، نیوز، کرنٹ افیئر، سیاست ، اخلاقیات، مذہب وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں ان پر اس الگوردم کی خصوصی نظر ہوتی ہے۔ جب بھی کسی اکاؤنٹ سے پوسٹ کئے گئے ویڈیو یا ٹیکسٹ کو خاص مقدار سے زائد ویورشپ ملنا شروع ہوتی ہے تو یہ الگوردم اس پر اپنی نظر جما لیتا ہے۔ اگر تو وہ مواد ان کی پالیسی اور نظریات سے ٹکراؤ نہیں رکھتا تو اسے پروموٹ کیا جاتا ہے اور اگر یہ مواد ان کے مفادات سے متصادم ہو تو اسے محدود کر دیا جاتا ہے۔  ایسا اپنے نظریات خواہ وہ سیاسی، مذہبی ، ملکی یا جذباتی ہوں کیلئے کیا جاتا ہے دوسرا یہ کاروباری نقطہ نظر سے بھی وابستہ ہوتا ہے۔ ان نظریات یا مواد کو پیسے لیکر بھی پروموٹ کیا جاتا ہے جو جتنا زیادہ پیسہ خرچ کرے گا یہ الگوردم ان پر زیادہ سے زیادہ مہربان ہو گا۔

 

میرے آج کے کالم کا عنوان " اب سچ نہیں جھوٹ بھی جیت سکتا ہے" کے متعلق بخوبی جان چکے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ آجکل یہ میڈیا خواہ وہ سوشل ہو ، ڈیجیٹل ہو یا الیکٹرونک بہت طاقتور ہو چکا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ میڈیا اب تو ایٹمی ہتھیاروں سے بھی زیادہ کارگر ہے۔ جو نقصان ایٹمی ہتھیار نہیں پہنچا سکتے وہ  کام یہ سوشل میڈیا بخوبی انجام دے رہا ہے۔  اسی سوشل میڈیا کے ذریعے تھرڈ ورلڈ خصوصاََ مسلم ممالک میں انقلاب  کے نام پر فساد پھیلائے جا رہے  ہیں۔  مسلم ممالک کو تباہ کرنے اور زیرتسلط لانے کیلئے ان کی نوجوان نسل کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو قابل نفرت جھوٹ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر یہی نوجوان مثبت انداز سے تبدیلی لانے کی بجائے مرنے مارنے اور اپنے ملک اور خود کو تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے کا بھی پورا پورا بندوبست کیا گیا ہے۔  پہلے زمانے میں جس طرح دشمن کو تباہ کرنے کیلئے عورتوں کا استعمال کیا جاتا تھا اب یہی استعمال زیادہ ماڈرن انداز میں کیا جا رہا ہے اور پوری نوجوان نسل کو بے راہ روی اور بری عادات میں ڈال کر نسلیں اور قومیں تباہ کی جا رہی ہیں۔ ذرا سا غور کریں آپ کو جھوٹ سچ پر بھاری پڑتا ضرور نظر آئے گا۔  

 

یہ بھی پڑھیں:

جہالت کا ننگا ناچ

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے