یہ تو آغاز ہے ، جوتجھے انجام سفر لگتا ہے۔۔۔شاعر: فاروق شہزاد ملکانی

یہ تو آغاز ہے  ،  جوتجھے انجام سفر لگتا ہے۔۔۔شاعر:  فاروق شہزاد ملکانی

 

یہ تو آغاز ہے  ،  جوتجھے انجام سفر لگتا ہے۔۔۔شاعر:  فاروق شہزاد ملکانی

 

اپنی تازہ اردو غزل آپ دوستوں کے سامنے پیش کرنے سے قبل کچھ اپنے بارے میں بھی آپ کو بتاتا چلوں اور کچھ گزارشات بھی گوش گزار کر دوں۔ میں ( فاروق شہزاد ملکانی) نے لکھنے کا آغاز بہت چھوٹی عمر سے ہی کر دیا تھا۔ اقبال، غالب ، فیض احمد فیض، احمد فراز، ساغر صدیقی، پروین شاکر اور دیگر اردو کے شعراء کرام کو زمانہء طالب علمی سے ہی بہت شوق سے پڑھا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری پر طبع آزمائی بھی انہی دنوں سے شروع کر دی تھی۔  جو لکھتا تھا کچھ دن محفوظ رکھنے کے بعد کھو جاتا تھا اور میں اپنی تحریریں دھونڈتا رہ جاتا تھا۔ شاعری کے ساتھ نثر نگاری کے دشت میں خاک چھانی لیکن اپنی تخلیقات کو دنیا تک پہنچانے کے انتہائی محدود موقع کے باعث وہ تحریرں بھی کسی ٹرنک کی زینت رہنے کے بعد کہیں گم ہو گئیں۔

 

پھر یہی شوق مجھے صحافت کی نگری میں لے آیا۔ جس کیلئے بہت مشکلات بھی جھیلیں۔ تاہم پھر خبریں بنانے اور کچھ مضامین لکھنے کے ساتھ غم روزگار نے کہیں کا نہ چھوڑا  تو یہ لکھنے لکھانے کا شوق محدود ہی رہا۔ اب جب سے یہ ویب سائٹ (www.urduworld.com.pk) شروع کی ہے تو دل شاعری لکھنے کو مچلنے لگا ہے۔  درج ذیل غزل میری تازہ غزل ہے۔ جو میں نے آج ہی لکھی ہے۔ امید کرتا ہوں آپ دوستوں کو پسند آئے گی اور آپ میری حوصلہ افزائی کریں گے۔

 

آئندہ دنوں میں اپنی مزید شاعری جو کسی ٹرنک، شیلف یا دراز میں پڑی اپنی رونمائی کا انتظار کر رہی ہیں وہ آپ دوستوں کی خدمت پیش کروں گا ساتھ ہی تازہ کلام بھی ضرور لاتا رہوں گا۔  امید ہے آپ دوست میری اس کاوش کو پذیرائی بخشیں گے۔ اسے شیئر اور کمنٹ ضرور کیجئے گا۔ اگر اس کلام کو کاپی کر کے کہیں اور شائع کرنے یا پوسٹ کرنے کا من کرے تو ہمیشہ شاعر کا نام ضرور لکھا کریں۔ کسی اور نام سے یا اپنے نام سے شائع یا پوسٹ کر کے سرقہ نہ کیجئے گا۔ اس شاعری کو لکھنے میں بہت محنت لگتی ہے ایک ایک لفظ جوڑنے میں کئی بار اپنے آپ کو مارنا اور زندہ کرنا پڑتا ہے۔جیسا میری اسی غزل کا ایک شعر بھی ہے

یہ شاعری جسے تم فقط لفظوں کا کھیل کہتے ہو

خیالات کو شعر بنانے میں خون جگر لگتا ہے

 

بس اتنی سی گزارش ہے امید ہے آپ میری یہ باتیں اچھی طرح سے سمجھ گئے ہوں گے۔  اب ملاحظہ فرمائیں میرا تازہ کلام  بہت شکریہ

 

اردو غزل

شاعر : فاروق شہزاد ملکانی

 

یہ تو آغاز ہے  ،  جوتجھے انجام سفر لگتا ہے

یہ سب میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے

 

میں اک بار پھر ڈوب کے ابھروں گا

یہ تو فقط چند بوند پانی ہے جو بحر لگتا ہے

 

میں گیا وقت ہو جاؤں ، یہ تیری خواہش ہو سکتی ہے

بات ابتک  بنی ہوئی ہے یہ میرے مولا کا ہنر لگتا ہے

 

یہ شاعری جسے تم فقط لفظوں کا کھیل کہتے ہو

خیالات کو شعر بنانے میں خون جگر لگتا ہے

 

یاد رہے وقت سبھی پر آتا ہے، ہوا کسی کی نہیں

دیئے بجھانے میں تو بھی تواس قدر باہنر لگتا ہے

 

کیا دن تھے کہ ملنے کے بہانے تلاشا کرتے تھے

اب دوریاں اتنی کہ چمن صحرائے تھر لگتا ہے

 

میں لوٹ کے آ نے والا  ہوں اے ستمگر، انتظار کر

اب مہینوں یا  دنوں کا نہیں گھڑیوں کا سفر لگتا ہے

 

وہ اک آوارہ مزاج نے پوچھا نہیں لوٹ کر

وہ چند پلوں کا نارسا صدیوں کا ستمگر لگتا ہے

 

اپنوں سے اس قدر تغافل بھی اچھا نہیں شہزاد

تیرے ہونے سے ہی تو یہ مکاں گھر لگتا ہے

 

شاعر: فاروق شہزاد ملکانی

 

ٹیگز: اردو شاعری، مشہور اردو شاعری، فاروق کی اردو شاعری، شہزاد کی اردو شاعری، فاروق شہزاد ملکانی کی اردو شاعری

غمگین شاعری، اردو غزل

 

یہ بھی پڑھیں

فاروق شہزاد ملکانی کے کالمز

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے