الطاف حسین ثانی ، بقا کی فیصلہ کن لڑائی ... تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

الطاف حسین ثانی ، بقا کی فیصلہ کن لڑائی

 

الطاف حسین ثانی ، بقا کی فیصلہ کن لڑائی
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

الطاف حسین ثانی نے اپنی بقا کی فیصلہ کن لڑائی چھیڑ دی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو بتاؤں کہ الظاف حسین ثانی کون ہے اور وہ اپنی بقا کی آخری لڑائی کیسے لڑ رہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اپنے ان دوستوں جو کہ سیاسی نابالغی کے مراحل سےگزر رہے ہیں  اور اپنی اس نابالغیت کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کوبتاؤں کہ الطاف حسین کون ہیں؟  

 

الطاف حسین جو بعد ازاں الطاف بھائی یا الطاف حسین بھائی کے نام سے مشہور ہوئے اور اردو بولنے والی مہاجر کمیونٹی کے لیڈر ہونے کے دعویدار تھے حالانکہ وہ لندن میں بیٹھ کر اب بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں جب ضیائی مارشل لاء کی ستم ظریفیاں اپنے عروج پر تھیں ، مارشل لاء ڈکٹیٹر ضیاءالحق کو یہ ضرورت پیش آئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں ٹکر دینے کیلئے کسی کو سامنے لایا جائے تو ان کی نظر انتخاب الطاف حسین پر پڑی جو جوان بھی تھے اور سٹوڈنٹ سیاست کر کے تحریکی سیاست کے ساتھ ساتھ ہاکی، بلے ، ڈنڈے اور پتھر کی سیاست سے بھی خوب واقف تھے۔ الطاف حسین جذباتی تقاریر کرنے کے بھی ماہر تھے یوں انہوں نے 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا آغاز کیا اور مہاجروں کو حقوق کے حصول اور استحصال کے خلاف اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ مقرر اگر جذباتی تقاریر کرنے کا ماہر ہو اور پھر آپ کے حقوق اور ہونے والے ظلم کا ذکر بھی کرے تو سادہ لوح عوام آسانی سے ان کے گرد جمع ہو جاتی ہے اور تالیاں بھی بجانا شروع ہو جاتی ہے۔ ضیاء الحق کا ہاتھ پشت پر آنے کے بعد تو الطاف حسین الطاف بھائی ہو گئے اور کراچی میں ان کا طوطی بولنے لگا۔ تیزی سے ایم کیو ایم کے دفاتر کھلنے لگے ، لوگ جوق در جوق ایم کیو ایم میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ الطاف حسین کی  دو چار دوستوں سے شروع ہونے والی سٹوڈنٹ جدوجہد ایک لشکر میں تبدیل ہو گئی اور ایک ایسا وقت بھی آ گیا جب الطاف حسین کراچی شہر کی اکثر نشستیں جیت لیا کرتے تھے  حتیٰ کہ بہت سے نشستوں پر تو کوئی مقابل ہی نہ ہوتا تھا اور اگر کوئی کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی جرات کر بھی لیتا تھا تو وہ الیکشن کمپین نہیں کر سکتا تھا اور صرف چند سو ووٹ لیکر گھر جا بیٹھتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب سیاسی مخالفین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کراچی کے اکثر علاقے نو گو ایریاز تھے۔ بھتہ خوری، منشیات فروشی، اسلحہ کی تجارت وغیرہ کراچی میں عام تھی۔ سیاسی مخالفین اور بھتہ نہ دینے والے  اور روڑے اٹکانے والوں کی بوری بند نعشیں ملا کرتی تھیں۔

 

الطاف حسین و ن مین پارٹی تھے۔ وہ جس کو چاہتے پارٹی میں لے آتے ، جس کو چاہتے پارٹی سے نکال دیا کرتے تھے۔  یہی وجہ تھی کہ ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی، سینیٹر، وزیر مشیر اور عہدیدار سب ان سے ڈرتے تھے اور ان کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے خواہ وہ یہ کیوں نہ کہہ دیں کہ سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے یا کوا سفید ہے۔ سب آگے سے یہی کہتے تھے " جی بائی جان، آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں"۔  حتیٰ کہ پارٹی سے نکالے جانے کے بعد بھی وہ بے چارے ساتھ رہنے پر مجبور تھے یا خاموشی سے گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگتے تھے۔   اس  عروج کے دور میں ووٹرز کو بہت آسانی تھی خواہ پولنگ اسٹیشنز پر آئیں یا کہیں بھی ہوں ان کے ووٹ کاسٹ ہو جاتے تھے یا وہ اپنا ووٹ کسی بھی ڈبے میں ڈال جائیں وہ الطاف بھائی کے ڈبے سے ہی نکلتا تھا۔ ایسا صرف اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ طاقت کے سارے چشمے 90 (الطاف حسین کی رہائش گاہ)پر ہی پھوٹا کرتے تھے کیونکہ پیپلز پارٹی کو سبق سکھانا تھا اور اسے ختم کرنا مقصود تھا۔

 

کراچی پر قبضے کے بعد ایم کیو ایم کو پورے سندھ اور ملک کے دیگر حصوں تک پھیلانے کیلئے بہی خواہوں کے مشورےاور حمایت کے ساتھ ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی موومنٹ کی بجائے متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا۔ پورے ملک میں دفاتر قائم کئے گئے۔ انتخابات میں امیدوار کھڑے کئے جانے لگے۔ ایم کیو ایم پھلنے پھولنے لگی۔ کراچی میں ظلم و بربریت اور بدامنی عروج پر پہنچ گئی۔ یوں میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں کراچی میں اپریشن شروع کر نے کی اطلاعات موصول ہونے لگیں جس کا چرچہ اخبارات میں بھی ہونے لگا  بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ الطاف حسین کو اس ممکنہ اپریشن سے متعلق جام صادق نے بتایا تھا  اور انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ لندن میں پناہ لے لیں( جام صادق اس وقت وزیراعلیٰ سندھ تھے)۔ جس کے بعد الطاف حسین عمرے کا بہانہ کرکے  02 جنوری 1992 کو سعودی عرب گئے اور پھر وہاں سےپاکستان واپس آنے کی بجائے لندن چلے گئے اور سیاسی پناہ کی درخواست دے دی۔ جس پر انہیں پناہ دے دی گئی اور بعد ازاں انہیں 2001 میں برطانوی شہریت بھی دے دی گئی۔

 

الطاف حسین جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے باوجود تقریباََ ڈھائی عشرے اپنی پارٹی پر بلا شرکت غیرے قابض رہے اور لندن سے بیٹھ کر پارٹی چلاتے رہے۔ وہ فون پر خطاب کرتے تھے تو جلسہ گاہ میں ان کی پارٹی کے  بڑے بڑے رہنما سر جھکا کر بیٹھے رہتے ۔ یہ خطابات ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھائے جاتے جو ٹی وی چینل دکھانے سے معذرت کر لیتا تو اس کا چینل کیبل پر بند کر دیا جاتا۔ اس کے دفاتر پر حملے ہوتے یوں کسی چینل میں اتنی جرات نہ تھی کہ اس کے جلسے اور خطابات بغیر کسی تعطل کے نہ دکھائے۔

 

پھر ایسا ہوا کہ مہربانوں کا ہاتھ ان کی پشت سے ہٹنے کے بعد پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی۔ مختلف رہنما جو ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا تھا اس نے اپنی پارٹی اور الگ دھڑے بنا لئے۔ جس الطاف حسین کو اپنی بقا خطرے میں نظر آنے لگی تو اس نے سخت تقاریر شروع کر دیں۔ پھر بھی توجہ حاصل نہ کر پائے تو انہوں نے بھارت کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی حتیٰ کہ اپنی بقا کیلئے کسی بھی حد سے گزرنے کی ٹھان لی اور ایک لائیو تقریر میں پاکستان کے خلاف شرانگیزی بھی کر دی ۔ جس پر ان کی پشت پر رہنے والا ہاتھ مکمل طور پر ہٹ گیا(اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ایک اور الطاف حسین مل گیا تھا) یوں ان کی پارٹی مکمل طور پر تتر بتر ہو گئی اور کئی حصوں میں بٹ گئی۔ اہم رہنماؤں نے ان سے برات کا اعلان کر دیا اور ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کے ناموں میں بٹ گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ان کا الطاف حسین یا ایم کیو ایم لندن سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہے۔ یوں الطاف حسین برائے نام پارٹی تو رکھتے ہیں مگر پاکستان کی سیاست سے ان کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ ان کی پارٹی اب پاکستان میں الیکشن تک نہیں لڑ سکتی ۔ یہ اور بات کہ وہ اب بھی پاکستانی سیاست میں داخلے کیلئے اپنی کوششیں کر رہے ہیں لیکن طاقتور حلقے اب انہیں چلا ہوا کارتوس سمجھتے ہیں۔

 

اب آتے ہیں الطاف حسین ثانی کی طرف ، ہو سکتا ہے کچھ دوستوں کو میرے اس نقطہ نظر سے اختلاف ہو کہ عمران خان ہی پاکستانی سیاست کے الطاف حسین ثانی ہیں۔ لیکن اگر اوپر کی مکمل کہانی پڑھنے کے بعد وہ غور کریں تو انہیں عمران خان اور الطاف حسین میں بہت سی قدریں مشترک نظر آئیں گی۔  جیسے انہیں بادشاہ گر قوتوں نے پالا پوسا اور اقتدار میں لے کر آئے۔ عمران خان کو اقتدارمیں لانے کی کوششیں 90 کی دہائی سے جاری تھیں۔ جس کی تصدیق معروف سماجی رہنما اور ورکر ، ایدھی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کر چکے ہیں اور بتا چکے ہیں کہ کس طرح 1994 میں جنرل حمید گل، عمران خان اور کچھ دیگر لوگ ان کے پاس آئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کیلئے ان کا ساتھ دینے کو کہا اور انکار کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔ جس پر عبدالستار ایدھی اچانک لندن چلے گئے ۔ لندن پہنچ کر عبدالستار ایدھی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے قتل کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور قتل کر کے اس کا الزام ایم کیو ایم پر لگانے کا کہا گیا ہے۔ عبدالستار ایدھی کے اس انکشاف سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مقتدرہ قوتیں الطاف حسین سے جان چھڑا کر عمران خان کو لانا چاہتی تھیں لیکن وہ فوری طور پر اپنے اس منصوبے میں ناکام ہو گئیں کیونکہ عبدالستار ایدھی نے ان کے اس منصوبے میں شمولیت سے انکار کیا تھا بلکہ ان کا منصوبے کا انکشاف بھی کر دیا تھا۔ یوں یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا اور التوا کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف خود اقتدار میں آ گئے اور پھر انہیں 2013 کے الیکشن میں کامیاب کروانے کا منصوبہ بنایا گیا (بعض دوست یہ بھی کہتے ہیں یہ منصوبہ 2008میں بھی تھا مگر محترمہ بینظیر بھٹو کی اچانک شہادت نے یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا تھا)مگر بوجوہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یہی وہ خفت تھی جس کے باعث ایک سال بعد ہی خان صاحب کو 126 دن کے دھرنے پر لے آیا گیا اور پھر 2018 کے الیکشن تک تحریکیں اور سازشیں ہی چلتی رہیں۔ 2017 میں نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل کرنے کے بعد مسلم لیگ ن پر مختلف الزامات لگا کر الیکشن کمپین سے یکسر دور کر دیا گیا۔ آخر کار 2018 میں وہ منصوبہ کامیاب ہوا اور خان صاحب اقتدار میں آ گئے۔

 

الطاف حسین اور عمران خان میں ایک  اورقدر جو مشترک ہے وہ ہے ان کا ون مین شو، پاکستان تحریک انصاف  میں عمران خان ہی واحد لیڈر ہیں کسی دیگر کی کوئی اہمیت نہیں ۔ خواہ خان صاحب کچھ بھی کہہ دیں ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہی وجہ ہے ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو عمران خان کہہ دیں کسی دیگر رہنما کو کسی بھی فیصلے کا کوئی اختیار نہیں نا ہی انکارممکن ہے۔ عمران خان نے جلا وطنی تو اختیار نہیں کی مگر اقتدار جانے کے بعد جس طرح سے وہ اپنے گھر کے دو کمروں اور مشینی اور انسانی پہریداری میں وہ اپنا وقت بتا رہے ہیں یہ بھی کسی جلاوطنی سے کم تو نہیں۔

 

الطاف حسین جس طرح اپنی بقا کی جنگ کیلئے ہر حد پار کرنے کو تیار تھے بلکہ پار بھی کیں اسی طرح عمران خان بھی اپنی سیاسی بقا کی جنگ میں ہر حد سے گزرنے کو آمادہ نظر آتے ہیں۔ اب ان کی گرفتاری پر ہونے والے احتجاج کو ہی دیکھ لیں جس طرح سے انہوں نے ملکی و قومی توقیر، بقا کی علامات اداروں پر حملے کئے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی بقا کیلئے کسی بھی حد سے گزر جائیں گے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان کی سیاست باقی رہتی ہے یا اپنے انجام کو پہنچتی ہے مگریہ طے ہے کہ وہ صرف اسی صورت ہار مانیں گے جب انہیں ان کی سیاسی بقا کا یقین دلایا جائے گا یا انہیں ناک آؤٹ کر دیا جائے گا کیونکہ اب وہ اس مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں آگے گڑھا تو پیچھے کھائی ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

پرانا یا نیا پاکستان نہیں صرف ہمارا پاکستان

عمران خان کا لاہور شو۔۔ تحریر: ڈاکٹر فیض محمد بلوچ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے