پرانا یا نیا پاکستان نہیں صرف ہمارا پاکستان۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

پرانا یا نیا پاکستان نہیں صرف ہمارا پاکستان۔۔  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

پرانا یا نیا پاکستان نہیں صرف ہمارا پاکستان

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

مملکت خداد پاکستان جیسا کہ سب جانتے ہیں 1947 میں انگریز اور ہندو استعمار سے آزاد ہوا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے کونے کونے سے مسلمانوں نے آزاد وطن پاکستان کی جانب ہجرت کی۔ اس ہجرت میں ان کو بے پناہ مسائل اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بڑی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے ۔ لٹے پٹے خاندان پاکستان پہنچے اور کہا تھا کہ یہ وطن پاکستان ہمارا ہے۔یہی وہ جذبہ تھا کہ لاکھوں مسلمانوں نے نئے وطن کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اپنے پیاروں کو کھویا ، اپنی جائیدادیں اور اپنا مرتبہ گنوایا مگر پھر بھی ہمارے پاکستان کیلئے ہجرت کو یقینی بنایا ۔

 

یہ تو تھے چند وہ حقائق جو تاریخ کے جھروکوں سے مستعار لے کر آپ کی خدمت میں پیش کئے ۔ اب آتے ہیں موجودہ حالات کی جانب،  کسی نے اپنے سیاسی عزائم کیلئے "سب سے پہلے پاکستان "کا نعرہ لگایا (حالانکہ صاف نظر آ رہا تھا کہ سب سے پہلے کچھ بھی تھا مگر پاکستان نہیں تھا۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ پاکستانیوں اور پاکستان کی انا بیچ کر باہر کے ممالک میں اپنے اکاؤنٹ بھرے گئے اور ہم پاکستانی بے چارے سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر عش عش کرتے رہ گئے) اور کوئی اپنی انا کی تسکین اور سیاسی مقاصد کیلئے "نیا پاکستان" بنانے کیلئے نکل پڑا ( یہ اور بات کہ نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہم نے پرانا پاکستان بھی گنوا دیا) اور یوں ہم نہ گھر کے رہے اور نہ گھاٹ کے، جو نیا پاکستان بنا اس میں ہم نے سب کچھ گنوا دیا۔ وسائل کو بیدردری سے لوٹا گیا۔ بات اگر صرف وسائل کی لوٹ کھسوٹ تک ہی محدود رہتی تو بھی کچھ نہ بگڑا تھا لیکن یہاں تو پوری نسل ہی بگاڑ دی گئی۔ اخلاق باختگی کے ایسے یسے مظاہرے دیکھنے کو ملے کہ اللہ معاف فرمائے اور غضب یہ کہ انہیں ایسی ایسی اعلیٰ اصطلاحات میں ملفوف کر دیا گیا کہ اگر ان پر بات ہی کرنے بیٹھیں تو توہین مذہب اور پاکستان سے غداری کا الزام لگ جائے۔  یوں وہ باتیں نہ ہی ہضم ہوتی ہیں اور نہ بندہ انہیں اگل سکتا ہے۔

 

پرانے اور نئے پاکستان کے ساتھ ساتھ آجکل ایک اور اصطلاح سامنے آئی ہے حالانکہ یہ نئی اصطلاح تو نہیں مگر یہ اس طرح سے یوں مستعمل نہیں رہی تو اسے نیا ضرور کہا جا سکتا ہے۔ گذشتہ دنوں چیف آف آرمی سٹاف  اور آئی ایس آئی چیف پارلیمنٹ آئے  جہاں انہوں نے کہا کہ نئے اور پرانے پاکستان کی باتیں چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات ہونی چاہیے۔ یوں یہ اصطلاح سامنے آئی ۔ اگر نیوٹرل ہو کر سوچا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعی اس وقت مملکت خداداد جن مسائل سے گزر رہی ہے ہمیں اسے اپنا بن کر اپنانے کی بے حد ضرورت ہے۔ نئے اور پرانے کی تقسیم چھوڑ کر سب کو اس اصطلاح "ہمارا پاکستان" کو صحیح معنوں میں اپنانا چاہئے۔  اس وقت جس طرح کی تقسیم اور بدگمانی پاکستانی معاشرے میں پائی جاتی ہے اسے ختم کرنے کیلئے تمام اکائیوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

 

آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے یوں پارلیمنٹ ہاؤس آنے سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ آرمی کے موجودہ چیف صرف آئین کی عملداری اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو آئین اور پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ مانتے ہیں۔ جو کہ جمہوریت اور پاکستان کیلئے ایک اچھا شگون ہے۔ جب تمام ادارے اور اداروں کے لوگ اپنے آپ کو آئین پاکستان کے تابع سمجھیں گے تو بہتری کی جانب ہمارا بحیثیت قوم سفر شروع ہو جائے گا اور یہ سفر یقینی طور پر شروع ہو چکا ہے۔ بہت جلد تبدیلی کے آثار اور اثمار  نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔مجھے یقین ہے کہ جنرل عاصم منیر چیف آف آرمی سٹاف اپنے اس مدت ملازمت میں پاکستان کو ایسی شاہراہ پر لے آئیں گے جہاں سے آگے اگر سب اچھا نہیں تو بہت کچھ اچھا ہو گا اور وہ پرانا یا نیا  پاکستان نہیں "ہماراپاکستان" ہو گا۔


یہ بھی پڑھیں: 

فیصلہ تو آ گیا مگر ہو گا کیا؟۔۔۔تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

سیاسی بحران عدالتی بحران میں تبدیل، کل کیا ہو گا؟ تحریر:فاروق شہزاد ملکانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے