فیصلہ تو آ گیا مگر ہو گا کیا؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

فیصلہ تو آ گیا مگر ہو گا کیا؟  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

فیصلہ تو آ گیا مگر ہو گا کیا؟

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ ( چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب ، جسٹس اعجازالاحسن) نے پنجاب اور کے پی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے میں اس تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ تبدیل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ لہذا پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہوں گے اور یہ حکومت کو حکم دیا ہے کہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرے اور خواہ وہ کہیں سے بھی لائے سیکورٹی بھی فراہم کرے۔ اس فیصلے میں اس تین رکنی بنچ نے کے پی کے کو علیحدہ کر لیا ہے  اور کہا ہے کہ اگر کے پی کے کے حوالے سے کوئی درخواست آئی تو اسے بھی دیکھ لیں گے۔

 

اس فیصلے میں اس تین رکنی بنچ نے اپنے سابقہ فیصلے کے حوالے سے جو ابہام تھا کہ وہ فیصلہ 4/3 کا تھا یا 3/2 تو اس بارے میں بھی کہا کہ وہ فیصلہ 3/2 کا تھا۔ لہذا اسے اقلیتی فیصلہ نہ کہا جائے۔ اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنچ کے اس فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا کوئی بھی سوموٹو بنچ نہیں بنایا جا سکتا۔

 

اس فیصلے کو اگر ذرا غور سے دیکھیں تو یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ جو گذشتہ روز کی سماعت میں دیکھا گیا تھا کہ چیف جسٹس اور دیگر دو ججز نے اس فیصلے کے حوالے سے اپنا ذہن بنا رکھا ہے اور اس بات کا اظہار دوران سماعت بھی کیا گیا تھا، یہ فیصلہ اس شک کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ججمنٹ نہیں بلکہ ایک انتظامی فیصلہ نظر آتا ہے جس میں اس تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن، صدرمملکت اور حکومت کے اختیارات کو خود استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنچ الیکشن کمیشن کو تو تاریخ تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دے رہی جبکہ خود نہ صرف تاریخ تبدیل کر رہی ہے بلکہ شیڈول بھی خود بخود جاری کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس فیصلے میں نظر آنے والے تضادات اور عجلت بخوبی نظر آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بنچ اپنے فیصلے میں تمام انتظامی فیصلے بھی خود کرنا چاہتی ہے اس کیلئے وہ کسی کو سننے کی روادار نظر نہیں آتی۔ جس کا اظہار گزشتہ روز کی سماعت میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

 

فیصلہ تو آ گیا جس کی توقع کی جا رہی تھی مگر اب ہو گا کیا؟ اس بارے میں اگر قانونی ماہرین اور سیاسی پنڈتوں کے تبصروں کو دیکھیں تو یہ بخوبی نظر آ رہا ہے کہ الیکشن 14 مئی کو ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ اس سلسلہ میں حکومت کے پاس بہت سے آپشن موجود ہیں۔ اس وقت جس طرح سے سیاسی پارہ بڑھ چکا ہے حکومت خود کو حاصل ان تمام آپشنز کا استعمال کرے گی۔ جس کے بعد وقت پر الیکشن ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

 

ایک اور پوائنٹ آف ویو جو مجھے نظر آ رہا ہے وہ اگر حکومت نے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے سیاسی شہید بننے کا فیصلہ کر لیا تو بھی الیکشن 14 مئی کو نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ مجھے سپریم کورٹ میں بھی ایک تقسیم مزید بڑھنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ عدالتی تقسیم اور جنگ اتنی بڑھ جائے اور الیکشن تو کیا سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگ جائے۔ لیکن میری دعا ہے کہ معاملات بہتر ہو جائیں اور ایسے فیصلے ہوں جس سے ملک و قوم کی بہتری ہو۔آمین

 

یہ بھی پڑھیں:

 سیاسی بحران عدالتی بحران میں تبدیل، کل کیا ہو گا؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

عمران خان کا لاہور شو۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر فیض محمد خان بلوچ

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے