سیاسی بحران عدالتی بحران میں تبدیل، کل کیا ہو گا؟
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
کئی
ہفتوں سے جاری سیاسی بحران عدالتی بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔ آج پنجاب اور کے پی
کے انتخابات کے حوالےسے سوموٹو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پانچ رکنی بنچ کے ایک
رکن جسٹس امین الدین خان نے اس بنچ میں بیٹھنے انکار کر دیا اور اپنے ریمارکس میں
کہا کہ چونکہ گذشتہ روز وہ ایک اور بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ سوموٹو
اختیار کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ دے چکے ہیں لہذا وہ اس بنچ میں بیٹھ کر اپنے اس
فیصلے کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ جس پر قوائد کے مطابق یہ بنچ ٹوٹ گیا۔ یوں بنچ کے
ارکان کورٹ روم سے اٹھ کر اپنے چیمبرز کی طرف چلے گئے۔ آج سارا دن اس کیس پر کوئی
سماعت نہ ہو سکی اور نہ ہی نئے بنچ کا اعلان کیا جا سکا۔ تاہم عدالتی وقت کے
اختتام سے قبل اس بنچ کے عدالتی اہلکاروں
نے کورٹ روم میں آ کر یہ اعلان ضرور کیا کہ بنچ جو بھی بنے گا مگر اس کیس کی سماعت
ضرور ہو گی۔
اب
اگر ہم یہ دیکھیں کہ بنچ جو بھی ہو گا سے مراد یہ ہے کہ ابھی اس بنچ کے حوالے سے
کوئی بھی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ نہ تو فل کورٹ بنچ بنانے کا فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی
اس بنچ کو برقرار رکھنے یا کسی نئے رکن کی شمولیت کا فیصلہ ابھی چیف جسٹس عمر عطا
بندیال کر سکے ہیں۔ کل ہفتہ وار عدالتی ورکنگ دنوں میں آخری دن ہے۔ اگر کل اس کیس
کا فیصلہ نہ ہو سکا تو اس کی سماعت سوموار تک ملتوی ہو گی۔ اگر بنچ میں نئے رکن کا
اضافہ کیا جاتا ہے تو سماعت ایک بار پھر آغاز سے شروع ہو گی۔ کیونکہ نئے آنے والے
جج کیس کی تفصیلات جاننا چاہیں گے اور اگر نہیں جانیں گے تو پھر کیس کے میرٹس پر
اپنا فیصلہ کیسے سنا پائیں گے اور اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا ہے تو بھی کیس کی
ہیرنگ ابتداء سے ہی شروع ہو گی۔ جو ایک بار پھر طول کھینچ جائے گی۔ جس کے باعث
پارلیمنٹ سے منظور شدہ نیا قانون لاگو ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا۔ اور اگر نیا
قانون لاگو ہو گیا تو پھر کورٹ اپنا فیصلہ نہیں سنا پائے گی۔ جسے سنانے کی کورٹ کو
بہت جلدی ہے اور اب تک کی ہیرنگ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہر فریق
کو جلد از جلد سننا چاہتی ہے۔ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کے نئے وکیل عرفان قادر کے
ساتھ کچھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی کر چکی ہے۔
اس
کیس کو لے کر سیاسی جماعتیں خواہ وہ حکومت کی ہوں یا اپوزیشن کی انتہائی دلچسپی سے
دیکھ رہی ہیں۔ حکومتی جماعتوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ ایک سیاسی بحران کو عدالتی
بحران میں تبدیل کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ جو پہلے ہی غوطے کھا
رہی ہے اب مزید الجھتی جا رہی ہے اور اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم واضح دکھائی دینے لگی
ہے۔ گو کہ یہ تقسیم پہلے بھی موجود تھی مگر اس طرح سے عیاں ہو کر سامنے آنے سے
گریزاں تھی۔ چیف جسٹس بندیال پرسیاسی جماعتیں اور کورٹ رپورٹرزکی جانب سے یہ الزام
لگایا جاتا تھا بلکہ سرعام لگایا جاتا تھا کہ وہ ہر سیاسی کیس میں اپنے ہم خیال
ججوں کو اپنے ساتھ بنچ میں رکھتے تھے بلکہ اگر الگ بنچ بھی بنتا تھا تو وہ ہم خیال
ججز ان بنچوں کا حصہ ہوتے تھے تاکہ اپنا من پسند فیصلہ حاصل کیا جا سکے۔ اس پر چیف
جسٹس اور ہم خیال ججز پر کھل کے تنقید بھی ہوتی تھی مگر وہ ان کو خاطر میں نہیں
لاتے تھے بلکہ سراسر نظر انداز کر دیتے تھے اور پھر نئے کیس میں پھر وہی بنچ تشکیل
پا جاتا تھا۔
اب
ان الزامات میں مزید شدت آ گئی ہے یہاں تک کہ کچھ آڈیوز اور ویڈوز بھی لیک ہوئی
ہیں جن میں ان ججز پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ اس پر بھی یہ ججز
اپنی بے رخی کا اظہار کر رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اب حکومتی اتحاد بھی خم
ٹھونک کر سامنے آ چکا ہے اور پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر آئینی ترمیم منظور کرا چکا
ہے جس میں چیف جسٹس کے سوموٹو کے حوالے سے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے اور
سوموٹو کے نتیجے میں آنے والے فیصلے پر اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یہ ترمیم قومی
اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہو چکی ہے اور صرف صدر مملکت کے دستخط ہونا باقی ہیں۔
صدر مملکت سوائے دستخط کرنے کے انہیں رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ہاں البتہ وہ
دس دن یہ سمری اپنے پاس رکھ کر نظر ثانی کیلئے بھیج سکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ ان کی
اس نظر ثانی کی درخواست کو رد کرنے کا اختیار رکھتی ہے اور وہ دوبارہ دستخط کیلئے
صدر کو بھیج سکتی ہے اگر دوسری بار بھی صدر 10 دنوں تک اس پر دستخط نہیں کرتے تو
بھی یہ ترامیم خود بخود لاگو تصور ہوں گی۔
کل
کیا ہو گا اس بارے میں کورٹ کے معاملات سے آگاہی رکھنے والے بہت سے ماہرین اپنے
اندازے لگا رہے ہیں۔ جن میں یہ بات اکثریت سے کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس موجودہ بنچ
کو برقرار رکھیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی اور رکن کا اضافہ بھی نہ کریں اور
انہی 4 ججز کے کے ساتھ اس کیس کی سماعت جاری رکھیں۔ ایسی کوئی پابندی تو نہیں کہ
چار ججز کا بنچ نہیں بنایا جا سکتا مگر اس کی روایت نہیں۔ کیونکہ اگر دو دو ججز کی
رائے تقسیم ہو گئی تو پھر فیصلہ کس طرح ہو گا اور حل کس طرح نکالا جائے۔ کل جو بھی
ہو میری دعا ہے کہ ہمارے عدالتی نظام اور مملکت خداد اور ملت پاکستان کیلئے نیک
شگون ہو لیکن جس طرح سے تقسیم تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے خیر کا پہلو بھی معدوم ہوتا
جا رہا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ ہم شاید کوئی ٹھوکر کھا کر ہی سنبھلیں۔
0 تبصرے