صحافت، اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔۔۔
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
پاکستانی
معاشرہ منافقت کی بدترین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دوسروں کیلئے اخلاق کے جو
معیارات ہم مقرر کر دیتے ہیں وہ اپنے آپ پر لاگو کرنا کیوں بھول جاتے ہیں۔ دوسروں
کی چھوٹی سے غلطی کو ان کیلئے ہم سوہان روح بنا دیتے ہیں جبکہ ہم خود صبح شام
غلطیوں کے انبار لگاتے جائیں تب بھی سامنے والا ہی قصور وار ٹھہرتا ہے۔ ایسا صرف
چند مخصوص طبقے کے لوگ نہیں بلکہ تمام طبقہء فکر کے لوگ پچھلے کچھ عرصہ سے کرتے آ
رہے ہیں۔
میرا
تعلق چونکہ شعبہ صحافت سے ہے تو آج صحافت کا ذکر کروں گا کہ صحافت سے وابستہ افراد
کس طرح پند ونصائح کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں لیکن جب یہی بات ان کے اپنے اوپر آ
جائے تو تمام اخلاقیات پس پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ تمام ضوابط و قوانین کو تہہ و بالا
کر دیا جاتا ہے۔ ہم صحافی صحافت کے اصولوں کو تو کب کا بھلا چکے ہیں اب تو ہم ملکی
قوانین کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جیسے ہی ہماری کسی قانون شکنی پر کارووائی شروع
کی جاتی ہے تو ہماری آزادیء اظہار رائے خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ہم آسمان سر پر اٹھا
لیتے ہیں۔ ملکی ہیومن رائٹس کے اداروں کو اپنی مدد کیلئے بلانے کے ساتھ انٹرنیشنل
اداروں کو بھی آواز دینا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ صحافت
کے لبادے میں کرمنل شخص ہے جو اپنے کالے کرتوتوں کیلئے صحافت کی آڑ لے رہا ہے۔
اپنے صحافی کے سٹیٹس کو اپنے یا کسی اور کے کرمنل یا مشکوک ایجنڈے کو تحفظ دے رہا
ہے۔ یہ تمام چیزیں سوچے اور مدنظر رکھے بغیر اس کیلئے یوں کمر بستہ ہو جاتے ہیں کہ
جیسے وہ دودھ سے دھلا معصوم انسان ہے اور ریاست یا قانون اس کے ساتھ زیادتی کر رہا
ہے۔ حالانکہ چاہئے تو کہ تمام ذمہ دار تنظیمیں شفاف انکوائری اور تحقیقات کا
مطالبہ کریں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور صحافیوں کے متعلق جو
عوام میں بدگمانیاں پھیل رہی ہیں ان کا خاتمہ ہو سکے۔
لیکن
ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ہر شعبہء زندگی کی طرح صحافت بھی تیزی کے ساتھ
تقسیم اور اپنے مقصد سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہر صحافی نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد
بنا رکھی ہے اور اس میں اپنے مفادات کے بت سجا رکھے ہیں۔ جن کی وہ ہمہ وقت پوجا
کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے صحافتی اداروں کی ادارتی پالیسیاں وقت کے ساتھ ساتھ
بدلتی رہتی ہیں۔ مفادات کو مدنظر رکھ کر نہ صرف اداریے لکھے جاتے ہیں، خبریں شائع
کی جاتی ہیں بلکہ پروپیگنڈا مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ یہ میڈیا ہی ہے جو کسی کے
اشارے پر پیشہ ور صحافیوں کو ملازمتیں دیتا اور نکالتا ہے۔ یعنی صحافت اب مشن نہیں
کمیشن کا چکر بن چکا ہے۔ اسی لئے تو بڑے بڑے سیٹھ اپنے کاروباروں کو تحفظ اور فروغ
دینے کیلئے میدان صحافت میں کود پڑے ہیں۔ ان کے آنے سے صحافت مزید کاروباری ہو چکی
ہے بلکہ سیاسی اور درباری بھی ہو چکی ہے۔
یہی
وجہ ہے صحافت کے معیارات بھی تبدیل ہو چکے ہیں جو صحافی کسی مخصوص ٹولے کیلئے بطور
ٹول استعمال ہو سکتا ہے وہ بڑا صحافی ہے اور بڑے بڑے ادارے اسے اپنا ملازم رکھنے
کو تیار ہوتے ہیں لیکن جو قلم کی حرمت اور اپنے ضمیر کو مقدم رکھتا ہے وہ بڑا
صحافی تو کجا اس کا لکھنا اور بولنا بھی بین کر دیا جاتا ہے۔ ان تمام تر کرتوتوں کے
باوجود اگر ہم کسی دوسرے شعبے کو برا بھلا کہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے
گریبانوں میں بھی جھانکنا ہو گا کہ ہم خود کیا ہیں اور کیا کیا کارنامے انجام دیتے
پھرتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلو، اپنی منافقت ترک کرو، اپنی صفوں میں موجود
کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرو تب ہی اپنی عزت و توقیر بحال کر پاؤ گے اور پھر
تمہاری بات میں وزن بھی ہو گا اور عوام اس پر اعتبار بھی کرے گی۔
0 تبصرے