صفا مروہ اور مسعیٰ: تاریخ و فضیلت - اردو ورلڈ

صفا مروہ اور مسعیٰ: تاریخ و فضیلت - اردو ورلڈ

 

صفا مروہ اور مسعیٰ: تاریخ و فضیلت

 

حضرت اُم ہانی  کا مکان ،قرآنی آیات سے مزین ستون

 

قرآن حکیم کی سورۃ بقرہ میں ار شادربانی ہے:

 ان الصفا والمرواۃ من شعائر الله

 "بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں"  

 

صفا و مروہ اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ صفا کا خانہ کعبہ سے فاصلہ 130میٹر ہے اور یہیں سے حج وعمرہ کے اہم رکن سعی کا آغاز کیا جاتا ہے اور مردہ پر اختتام ہوتا ہے۔ دونوں پہاڑیوں کی بڑی فضیلت ہے اور تاریخ میں بڑے اہم واقعات ان پہاڑیوں سے منسوب ہیں ۔ سورۃ شعراء کی جب یہ آیت رسول اکرم پر اتری کہ " اے حبیب آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہمارے عذاب سے ڈرا ئیے " تو آپ صفا پہاڑی پر چڑھے اور قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر انہیں پکارا۔ اس پکار پر لوگ  جمع  ہونا شروع ہو گئے جو خود نہ آسکے انہوں نے اپنے عزیز واقارب کو بھیج دیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فرمایا اے لوگوا گر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ (صفا) کے پیچھے وادی میں ایک لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مانو گے۔ سب نے بیک وقت کہا ہم نے آپ کو ہمیشہ سچاپایا ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا میں تم لوگوں کو ایک شدید عذاب سے ڈراتا ہوں جو بہت قریب ہے ابھی آپﷺ کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ ابو لہب نے کہا کیا تم نے ہمیں صرف اس بات کیلئے جمع کیا تھا۔ اس کے بعد وہ لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے ۔ یہ واقعہ اسی پہاڑی صفا پر پیش آیا تھا۔ ایک مرتبہ آپ اسی پہاڑی پر تشریف فرما تھے کہ ابو جہل کا وہاں سے گزر ہوا اس نے آپﷺ پر ایک پتھر کھینچ  مارا جس سے آپ ﷺکا سر مبارک لہولہان ہو گیا۔ آپﷺ کے چچا حضرت حمزہ اسی وقت کہیں سفر سے واپس آرہے تھے کہ ایک لونڈی نے انہیں اس واقعہ کی اطلاع دی۔ وہ غصے سے بھرے خانہ کعبہ گئے جہاں ابو جہل قریش کے ساتھ ایک محفل میں بیٹھا تھا۔ آپ نے اسے  دیکھتے ہی فرمایا تم نے میرے بھتیجے کو مارا ہے حالانکہ میں بھی اسی کے دین پر ہوں ۔ یہ کہہ کر ہاتھ میں پکڑی کمان اس زور سے ابو جہل کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔

 

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے اس پہاڑی (صفا) کو سونے کا بنادے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تم واقعی اس کیلئے تیار ہو۔ قریش نے ہاں میں جواب دیا۔ آپﷺ نے دعا فرمائی تو جبرائیل امین تشریف لے آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اللہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ آپ اگر چاہتے ہیں کہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنا دیا جائے تو میں اسے ابھی سونے میں بدل دیتا ہوں لیکن اس کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو پھر انہیں ایسا سخت عذاب دیا جائے گا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہوگی ۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ معاملہ ایسے ہی رہے اور میں (اللہ ) ان کیلئے تو بہ ورحمت کے دروازے کھلے رکھوں تو آپ نے فورا فرمایا کہ میں چاہتا ہوں تو بہ کا دروازہ کھلا ر ہے ۔ اسی پر قرآن کریم کی  یہ آیت نازل ہوئی تھی ترجمہ "اور ہم نے نشانیاں بھیجنی اس لئے موقوف کر دیں کہ اگلے لوگوں نے اس کی تکذیب کی تھی"

 

صفا ہی وہ  پہاڑی ہے کہ جب فتح مکہ  کیلئے مسلمان  مکہ آئے تو آپ ﷺ نے خالد بن ولید سے فرمایا کہ تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نشیبی علاقے سے مکہ میں داخل ہونا اور پھر صفا کے پاس جمع ہو جانا۔  پھر جب مکہ فتح ہو گیا آپ ﷺ نے  طواف کر لیاتو صفا پر چڑھ کر بیت اللہ کی طرف رخ کیا اور ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد دعا مانگتے رہے  ۔ اسی  پہاڑی پر اہل مکہ نے   آپ ﷺکے ہاتھ پربیعت  کی تھی۔

 

صفا پر انسان کی طرح بولنے والے جانور کا ظہور

 

قرآن مجید کی سورۃ نمل  میں ارشاد ربانی ہے" اور جب ان کے بارے میں ( عذاب کا ) وعدہ پورا  ہو گا تو ہم ان کیلئے زمین سے ایک جانور نکالیں گےجو ان سے بیان کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تھے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو اس سے پہلے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو اور دجال کا ظہور اور بولنے والا جانور نکل آئے۔ یہ جانور کہاں سے ظاہر ہو گا اس کے بارے میں تین قول معروف ہیں۔ ایک یہ کہ یہ جانور صفا سے ظاہر ہوگا ۔ دوسرا یہ کہ یہ  جانور جبل ابو قبیس سے نکلے گا ،تیسرا یہ  کہ یہ جانور سب سے بڑی  اورافضل مسجد سے نکلے گا۔ واضح رہے کہ جبل ابو قبیس ( جہاں اب بادشاہ کے محلات ہیں) اس صفا پہاڑی سے بالکل قریب ہے۔ اسی طرح افضل ترین مسجد حرم بھی  اس پہاڑی سے ملحقہ ہے۔

 

مروہ:

 

مروہ  بھی ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔ در اصل مروہ اس پہاڑی کے پتھروں کو کہا جاتا ہے پہاڑی کا نشان اب بھی موجود ہے۔ تاہم اس پر شیشہ پگھلا کر ڈال دیا گیاہے تا کہ مروہ پر آنے والوں کو اس کے پتھر پاؤں میں نہ لگیں ۔ مروہ پہاڑی خانہ کعبہ کے رکن شامی سے تقریب 300 میٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ سعی  اسی پہاڑی پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

 

مسعیٰ:

 

مسعیٰ صفا اور مروہ کے درمیان وہ جگہ ہے جہاں سعی کی جاتی ہے۔ ابتدا میں یہ جگہ ناہموار اور اونچی نیچی تھی۔ سعی در اصل حضرت ہاجرہ کی اس کوشش کی یاد میں کی جاتی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی بھوک پیاس کے باعث بے چینی کو دیکھتے ہوئے ان کیلئے کھانے پینے کی اشیاء کی تلاش میں کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام جب حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو اس بیابان میں یہ دعا کرتے ہوئے روانہ ہوئے کہ" اے پروردگار میں نے اپنی اولاد اس میدان میں لا بسائی ہے جہاں تیری کھیتی نہیں ،تیرے عزت والے گھر کے پاس۔ اے ہمارے رب تا کہ یہ نماز پڑھیں ۔ آپ لوگوں کو ایسا کر دیں کہ ان کی طرف جھکے ر ہیں اور ان کو میوؤں سے روزی دے تا کہ تیرا شکر ادا کریں حضرت ابراہیم کے جانے کے بعد کھجور یں اور مشکیزہ میں بھرا پانی ختم ہو گیا۔ بھوک اور پیاس سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام بے چین ہو گئے تو حضرت ہاجرہ قریبی صفا پہاڑی پر چڑھیں کہ شاید کوئی انسان کوئی کھانے پینے کی چیز نظر آ جائے کچھ نظر نہ آیا تو قریب ہی دوسری پہاڑی مروہ پر گئیں کہ شاید اس طرف کچھ نظر آجائے ۔ راستے میں ایک جگہ نسبتا گہری تھی جہاں سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام نظر نہیں آتے تھے۔ لہذا حضرت ہاجرہ اس گہری جگہ سے تقریبا بھاگتے ہوئے گزرتی تھیں ۔ یہی وہ جگہ ہے جسے میلین اخفرین کہتے ہیں۔ اب اس جگہ کے دونوں طرف سبز لائٹیں لگا دی گئی ہیں ۔ اس جگہ سے مرد حضرات حضرت ہاجرہ کی پیروی کرتے ہوئے دوڑتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اللہ نے حضرت ہاجرہ کی اس سنت کو قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا ہے۔ حضرت ہاجرہ نے صفامروہ کے درمیان جب سات چکر لگالئے تو وہ مروہ کے مقام پر تھیں جب انہیں ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی دو بھاگ کر حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے پاس آئیں تو زمزم کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ حضرت ابن عباس ارشاد نبویﷺ نقل کرتے ہیں کہ صفا مروہ کے درمیان لوگوں کی سعی کا پس منظر یہی ہے (یعنی یہ حضرت ہاجرہ کی کوشش کی یادگار ہے )

 

صفا و مروہ

1950 ء سے قبل تک مسعیٰ کے دونوں جانب دکانیں تھیں ۔ صفاسے مروہ کی طرف روانہ ہوں تو دائیں ہاتھ جو پہلا در وازہ   ہے اس کے پاس دارارقم تھا۔ دارارقم حضرت ارقم بن ابی الارقم مخزومی کا مکان تھا جو کوہ صفا پرواقع تھا اور عام گزرگاہ سے دور تھا۔ لہذا قریش کی نگاہیں یہاں تک نہیں پہنچتی تھیں۔ اسی مقام کو رسول اکرمﷺ  نے تبلیغ اور عبادت کیلئے مرکز بنایا۔ حضرت عمر بھی اس جگہ مسلمان ہوئے۔ جبکہ  اس کے بعد باب  بنی ہاشم پھر باب علی اور اس کے بعد باب عباس ہے۔ باب عباس والی جگہ سبز روشنیوں کے درمیان ہے اور حضرت عباس کا گھر اسی جگہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد باب النبی اور پھر باب السلام ہے۔ باب السلام وہ جگہ ہے جہاں سے گزر کر حضور ﷺاپنے گھر سے خانہ کعبہ میں آیا جایا کرتے تھے۔

 

صفا مروہ کی درمیانی مسافت 395.5میٹر ہے۔ معذور اور بزرگ خواتین و حضرات کیلئے درمیان میں چھوٹی چھوٹی گزرگاہیں بنائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ زمزم کا انتظام بھی ہے۔ کچھ عرصہ سے پہلی منزل پر بھی سعی کا انتظام کیا گیا ہے اور زیادہ رش ہو جائے تو چھت پر بھی سعی ہو سکتی ہے یعنی سعی کیلئے تین منزلہ انتظام ہے۔

 

اسراء اور بی بی اُم ہانی  کا مکان:

 

 رسول اکرم ﷺ کو ہجرت سے کچھ عرصہ قبل بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کرائی گئی ۔ معراج کی شب آپ کس جگہ سے روانہ ہوئے اس بارے میں کئی روایات ہیں۔ امام ابن اسحاق کہتے ہیں مسجد حرام سے معراج کیلئے روانہ ہوئے ۔ کچھ کا قول ہے کہ حطیم کے قریب سے روانہ ہوئے ۔ ام ہانی کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ  کو میرے گھر سے اسراء کی سیر کیلئے لے جایا گیا۔ وہ فرماتی ہیں کہ آپﷺ اس رات عشاء کے بعد میرے گھر سوئے ہوئے تھے۔ فجر کے وقت ہم بیدار ہوئے ہم نے آپﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی تو آپ نے فرمایا اے ام ہانی میں نے یہاں تمہارے ساتھ عشاء پڑھی پھر میں نے بیت المقدس جا کر نماز پڑھی اور اب تمہارے ساتھ نماز فجر ادا کی ۔جیساکہ تم نے دیکھا ہے۔ پھر آپ ﷺوہاں سے جانے لگے تو میں نے آپ کی چادر کا دامن پکڑ کر کہا یا نبی اللہ لوگوں کو یہ مت بتائیے گا۔ وہ آپ کو جھٹلا ئیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ان کو ضرور بتاؤں گا۔ چنانچہ آپ نے بتایا اور انہوں نے آپ کو جھٹلایا " آپ ﷺ کہاں سے معراج کیلئے روانہ ہوئے۔ غور کیا جائے اور موقع پر جگہ دیکھی جائے تو یہ سب ایک ہی مقام لگتا ہے۔ مطاف میں باب فہد اور باب عبدالعزیز کے درمیان ایک چبوترہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ اسی جگہ ٹیک  لگا کر بیٹھا کرتے تھے اور اسی مقام سے معراج کیلئے روانہ ہوئے۔ اس چبوترے کے بالکل عقب میں حضرت ام ہانی کا مکان تھا۔ اس مکان کی حدود اب بھی سرخ رنگ کے سنگ مرمر سے واضح ہے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ چبوترے والی جگہ ام ہانی کے صحن سے ملحقہ ہو۔ جن لوگوں کو علم ہے وہ اس چبوترے پر نفل ادا کرتے ہیں۔ اب یہ جگہ حرم میں شامل ہے جبکہ حطیم چند گز کے فاصلے پر ہے ۔ ۲۰۱۳ء کے آغاز پر تر کی حرم گرانے کا سلسلہ شروع ہوا ( دسمبر ۲۰۱۳ ء تک یہ جگہ موجود تھی ممکن ہے کہ توسیع کے دوران اس جگہ کی شکل بدل جائے۔

 

قرآنی آیات سے مزین ستون:

 

 مسجد حرام کے ترکی حرم والے حصے میں کئی ستون ایسے ہیں جن پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ ان میں ایک باب عبدالعزیز سے مطاف میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ کے ستون پر قرآنی آیات تحریر ہیں۔ اسی طرح باب عمرہ سے حرم میں آئیں تو مطاف کی جانب ستون پر آیات موجود ہیں۔ راقم نے ایک ایسا پرانا ستون مکہ کے عجائب گھر میں بھی دیکھا ہے ممکن ہے کمزور ہونے کی بنا پر یہ ستون تبدیل کیا گیا ہو۔ ان ستونوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو قر آنی آیات ان ستونوں پر تحریر ہیں وہ اسی مقام پر نازل ہوئی تھیں۔ کسی زمانے میں صفاء پہاڑی کی سمت واضح کرنے کیلئے بڑے مینار پر بھی قرآنی آیات تحریر تھیں لیکن اب یہ موجود نہیں ہے۔


 یہ بھی پڑھیں


زمزم کی تاریخ، فضیلت اور آب زمزم کا کیمیائی تجزیہ

مقام ابراہیم ، حجر اسود اور ملتزم – خانہ کعبہ کی تاریخ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے