پاکستان، قائداعظم کی میراث تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

پاکستان، قائداعظم کی میراث تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

پاکستان، قائداعظم کی میراث

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

قیام پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لینے بیٹھیں تو بہت ہی پیچیدہ اور گنجلک تاریخ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے پاکستانی تاریخ کو توڑ موڑ کے پیش کیا جاتا ہے۔ آزادی سے قبل بھی کچھ ایسا ہی منظرنامہ برصغیر پاک وہند میں بھی دکھائی دیتا تھا۔ اس سب کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح جو ایک مسلمان سیاسی رہنما اور وکیل تھے بہت سے محاذوں پر لڑ کر مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں 1947 میں دو ریاستیں وجود میں آئیں جو پاکستان اور انڈیا کہلائیں۔  قائداعظم محمد علی جناح کو بانی پاکستان اور بابائے قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

 

قائداعظم کی ابتدائی زندگی اور کیرئیر


قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ قائداعظم نے ابتداء میں انڈین نیشنل کانگریس کے رکن کی حیثیت سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔  قائداعظم اس وقت ایک کامیاب وکیل کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اپنے پیشے سے ایمانداری کے ساتھ وابستہ تھے۔ کوئی بھی کیس لینے کیلئے انہوں نے کچھ اصول طے کئے ہوئے تھے جو کیس ان کے میرٹ پر پورا نہیں اترتا تھا وہ کبھی اسے اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے تھے خواہ انہیں فیس کی مد میں کتنا ہی لالچ کیوں نہ دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا کیس کبھی نہیں ہارتے تھے۔ سیاست میں انہوں نے مسلم آبادی کے حقوق کے تحفظ کیلئے کانگریس کا پلیٹ فارم منتخب کیا لیکن وہ جلد ہی کانگریس کے دوغلے رویے کے باعث مایوس ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ کانگریس کے ساتھ رہ کر حقوق کا حصؤل ممکن نہیں۔ ابتدا میں قائداعظم علیحدہ ملک بنانے کے تصور کے حامی نہیں تھے وہ چاہتے تھے کہ متحدہ ہندوستان میں رہ کر حقوق کا حصول ممکن ہے لیکن وہ کانگریسی رہنماؤں کے نزدیک ہو کر اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ایک ساتھ رہ کر حقوق کا حصول اور خوشحال زندگی شاید مسلمانوں کو نہ مل پائے۔ آزاد ملک کی جدوجہد کیلئے وہ 1913 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔

 

قائداعظم اور جدوجہد پاکستان


قائداعظم کی شمولیت سے آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان میں نئی جان آ گئی۔ قائداعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے رہنما کے طور پر ایک آزاد ریاست کے قیام کیلئے مزید متحرک ہو گئے اور مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر ایک قوت بن کر سامنے آ گئی۔ یوں برصغیر کے کونے کونے سے مسلمان مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے اور ایک الگ ریاست کے قیام کیلئے یک زبان ہونے لگے۔

 

1940 میں قائداعظم کی رہنمائی میں مسلم لیگ نے لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا کنونشن منعقد کیا جس میں برصغیر سمیت دنیا بھر سے مسلم رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کنونشن میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں قیام پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ جسے بعد ازاں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس کنونشن کے بعد مسلم لیگ اور قائداعظم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی تحریک مزید تیز کر دی۔

 

قیام پاکستان


لاہور میں شاندار کنونشن کے بعد قائداعظم اور مسلمانوں میں آزادی کیلئے ایک لازوال جذبہ پیدا ہو گیا۔ قریہ قریہ گاؤں گاؤں مسلمانوں کی آزادی اور پاکستان کی تخلیق کیلئے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ جس پر انگریز سرکار اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی مشتعل ہو گئے اور مسلمانوں کو اس شعور کی سزا دینے لگے۔ لیکن مسلمان قائداعظم کی رہنمائی میں اپنے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹے یوں سرکار اور ہندو رہنماؤں میں یہ بات گھر کرنے لگی کہ مسلمانوں کو مزید غلام رکھنا اب ممکن نہیں۔ یوں 1947 کو قیام پاکستان کا اعلان کر دیا گیا۔

 

اب جب آزادی کا اعلان ہو گیا تو یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ آزادی کے دن / تاریخ کیلئے پاکستان اور انڈیا کو کون سی تاریخ دی جائے یوں 14 اگست 1947 پر اتفاق ہوا لیکن ہندو رہنما پاکستان کے ساتھ ایک ہی دن آزادی منانا نہیں چاہتے تھے جس پر انہوں نے قائداعظم کو کسی اور دن آزادی کی تاریخ چننے کا کہا جس پر قائداعظم ڈٹ گئے اور کہا کہ یہ جو آزادی ہمیں مل رہی ہے وہ مسلمانوں کی مرہون منت ہے لہذا پاکستان کا یوم آزادی انڈیا سے پہلے ہو گا لہذا آپ کسی اور دن کا انتخاب کر لیں ہم 14 اگست کو ہی اپنی آزادی کا دن قرار دیتے ہیں جس پر مجبوراَ انڈیا نے اپنے لئے 15 اگست کا دن منتخب کیا۔

 

قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی قیادت


14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے اعلان کے بعد برصغیر میں افراتفری پھیل گئی۔ نقل مکانی اور ہجرت کے بعد لاکھوں مسلمان لٹے پٹے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو پائے۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید بھی ہوئے۔ یوں ایک انسانی المیے نے جنم لیا۔ جسے سنبھالنا کافی مشکل تھا۔ اس وقت یہ اور بھی مشکل ہو گیا تھا جب نوتعمیر شدہ بے سروسامان ریاست پر یہ بوجھ آ پڑا ہو۔ لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر کے طور پر ان معاملات کو احسن طریقے سے سنبھالا اور چند ہی ماہ میں تمام لوگوں اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔

 

قائداعظم کی میراث آجکل


آج قائداعظم کی میراث پاکستان گونا گوں مسائل کا شکار ہے۔ غربت، بدعنوانی، دہشتگردی اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازشوں نے پاکستان کو ایک ایسی راہ پر آن کھڑا کیا ہے کہ پاکستان کا حقیقی خیرخواہ طبقہ شدید مایوسی کا شکار ہے۔ آج کسی بھی سیاسی جماعت کا مرکز و محور قائداعظم کے سیکولر اسلامی فلاحی ریاست کے اصول نہیں ہیں۔ آج تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کواتنا نقصان بیرونی دشمنوں نے نہیں پہنچایا جتنا اندرونی دشمنوں نے پہنچایا ہے۔

اندرونی دشمنوں و بیرونی نے اپنی ریشہ دوانیوں سے قائداعظم کی میراث کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب پاکستان میں نہ کوئی رہبر ہے اور نہ کوئی رہنما بلکہ صرف ہوس پرست ہیں جو اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی رہبر و رہنما پیدا ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ تاریخ ( وہ تاریخ نہیں جو سرکاری سرپرستی میں لکھی جاتی ہے بلکہ وہ تاریخ جو آزادانہ لکھی جاتی ہے) اٹھا کر دیکھیں تو آپ اچھی طرح سے سمجھ پائیں گے کہ کس طرح سے قائداعظم کے بعد گدھوں نے پاکستان اور پاکستانیوں کے وجود کو نوچنا شروع کر دیا تھا۔

 

آخر میں


آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر ایک فرق تھا تو وہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت تھی۔ وہ قائداعظم ہی تھے جنہوں نے انڈیا کے عزائم پر خاک ڈال کر مختصر عرصے میں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا اور بکھری ہوئی لٹی پٹی قوم کو ایک ملک بنا دیا تھا۔ اگر قائداعظم کچھ سال اور جی جاتے تو وہ نہ صرف بیرونی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کو خاک میں ملا دیتے بلکہ اندرونی دشمنوں کی پیدائش پر بھی مہر لگا جاتے لیکن شاید یہ اللہ کو منظور نہ تھا اور شاید یہ درست ہو گا کہ دشمن اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا تھا کہ پاکستان کو مضبوط نہیں ہونے دینا۔ اس لئے جب بھی یہ ملک پاؤں پاؤں چلنے لگتا ہے کوئی نہ کوئی طالع آزما یا بونا سامنے آ کر ملک کو ایک بار پھر اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔

 

قائداعظم محمد علی جناح کے مسلمانوں اور پاکستان پر احسانوں کیلئے یہ چند الفاظ شاید ناکافی ہوں لیکن پھر بھی راہ دکھانے کیلئے کافی ہوں گے کہ " قائداعظم ایک رہبر و رہنما تھے موقع پرست دھوکہ باز یا اداکار نہ تھے، ان کی حقیقی زندگی اور سیاسی زندگی میں کوئی ڈرامہ نہیں تھا"

 

یہ بھی پڑھیں:

ہر شاخ پہ الو بیٹھاہے۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

خدا کے بندوں کو جینے دو۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے