لیہ ریتڑہ پل پراجیکٹ، روڈز کی تعمیر تاخیر کا شکارکیوں؟

لیہ ریتڑہ  پل پراجیکٹ، روڈز کی تعمیر تاخیر کا شکارکیوں؟

 

 لیہ ریتڑہ  پل پراجیکٹ، روڈز کی تعمیر تاخیر کا شکارکیوں؟

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

لیہ ریتڑہ پل پروجیکٹ کی تکمیل کا خواب یہاں کے مکینوں کیلئے سوہان روح بنتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے اس پروجیکٹ کے حوالے سے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس کے بعدوفاقی وزیرمواصلات مولانا اسعد محمود کے احکامات پر کچھ ہلچل نظر آئی تھی اور اس پروجیکٹ کے جنرل منیجر این ایچ اے مظفر کھرل کو تبدیل کر کے ان کی جگہ افتخار ساجد کو تعینات کر دیا گیا تھا۔ جس پر کچھ امید بندھی تھی کہ شاید اب کچھ ہو جائے ۔ مگر کچھ دن کے ہنگامی دوروں کے بعد صورتحال جوں کی توں ہی رہی۔ چھ ماہ گزرنے کے باوجود سستی اور کاہلی ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہی۔ پروجیکٹ کی تکمیل میں مسلسل تاخیر کر کے عوام کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے آرٹیکل میں اس وقت یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ  ٹھیکیدار کچھ ذمہ داران کے ساتھ ملی بھگت کر کے اس پروجیکٹ کو تاخیر کا شکار کرنے کے درپے ہے تاکہ اپنا بجٹ بڑھوا سکے۔ لیکن اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ میرے وہ خدشات عملی شکل اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ موسم سرما آخری سانسیں لے رہا ہے۔بارشوں اور دریاؤں میں ظغیانی کا موسم قریب آتا جا رہا ہے۔ مگر ٹھیکیدار نے ابھی تک دریا کا رخ پل کے نیچے کی طرف نہیں موڑا ۔ حفاظتی بندوں اور دونوں اطراف روڈز کی تعمیر انتہائی سست رفتاری سے ہو رہی ہے۔

 

آپ لوگوں کی یادداشت کیلئے عرض کرتا چلوں کہ اس پروجیکٹ کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کیا تھا اور اس پر تیزی سے کام کا آغاز ہو گیا تھا۔ 2019 میں پل مکمل ہو گیا تھا جس کے بعد دونوں اطراف حفاظتی بندوں اور روڈز کی تعمیر ہونا تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب تک پل مکمل ہوتی ہے اس دوران روڈز اور حفاظتی بندوں کی تعمیر کیلئے منصوبہ بندی مکمل کر لی جاتی ، ٹیندرز جاری کر دیئے جاتے اور ٹھیکیدار کو ورک آرڈرز جاری ہو چکے ہوتے کہ جیسے ہی پل کے ٹھیکیدار کی جانب سے گرین سگنل موصول ہوتا کام شروع ہو جاتا اور ایک ڈیڑھ سال میں ہی یہ پروجیکٹ مکمل کر کے عوام کیلئے کھول دیا جاتا۔ یوں نہ تو بجٹ بڑھتا اور نہ عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس وقت تک یہ پروجیکٹ اچھا خاصا ریونیو کما کر دے رہا ہوتا ، علاقائی معیشت پر جو مثبت تبدیلی کے اثرات رونما ہو چکے ہوتے۔ لیکن ذمہ داران نے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیئے اور نہ ان سے بازپرس کرنے والوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ یوں پیشہ وارانہ بددیانتی نے اہل علاقہ کو ابھی تک اس پروجیکٹ سے مستفید ہونے سے کوسوں دور رکھا ہوا ہے اور قومی خزانے پر الگ سے بوجھ بنا ہوا ہے۔

 

آپ کو بتاتا چلوں کہ پل کو مکمل ہوئے 4 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ٹھیکیدار کو دو سال قبل ٹھیکہ مل چکا ہے مگر کام پر "پراگریس ندارد" کے مصداق اتنی سست رفتاری کا شکار ہے کہ ایسا لگتا ہے شاید ابھی چھ سال اور لگیں گے۔ ہر طرف سے خاموشی چھائی ہوئی ہے نہ ٹھیکیدار کو کام ختم کرنے کی کوئی جلدی ہے اور نہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو کام کے تکمیل کی ذمہ داری کا احساس ہے۔ اسی طرح لگتا ہے وزیرمواصلات مولانا اسعد محمود جن سے اہل علاقہ نے  بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں احکامات جاری کر کے یاددہانی کرانا بھول گئے ہیں۔

 

اس تاخیر کا ذمہ دار کوئی بھی ہو مگر اہل علاقہ سب کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ اس کی ذمہ دار ٹھیکیدار کی نااہلی ہے یا محکمانہ بددیانتی  مگر اہل علاقہ ان کے کارناموں کے باعث شدید اذیت کا شکار ہیں۔ قومی خزانے پر پڑنے والے اضافی بوجھ کا ذمہ دار کون ہے؟  اب اس کا تعین ہونا بہت ضروری ہے ۔ اہل علاقہ کا وزیر مواصلات موانا اسعد محمود  سےمطالبہ ہے کہ وہ اس پر ایکشن لے کر نہ صرف ان ذمہ داران کے خلاف کارووائی کریں بلکہ اس پروجیکٹ کی جلد از جلد تکمیل کیلئے اقدامات بھی  اٹھائیں۔ جس کیلئے اہل علاقہ وزیرموصوف کے تہہ دل شکرگزار ہوں گے۔ 


یہ بھی پڑھیں: 

قصور کس کا؟؟؟  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی 

خدا کے بندوں کو جینے دو۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے