کیا ایسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان سے ڈری ہوئی ہے؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

کیا ایسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان سے ڈری ہوئی ہے؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

کیا ایسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان سے ڈری ہوئی ہے؟

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

گذشتہ روز معروف عالمی نیوز ایجنسی 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے "ایسٹیبلشمنٹ مجھ سے ڈری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری زندگی کو خطرات پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ اگر مجھے کسی نے گرفتار یا قتل کرنے کی کوشش کی تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔" انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں پاکستانی سیاست میں ایسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید بھی کی اور اسے سدھارنے کا مطالبہ بھی کیا۔

 

ان کے اس انٹرویو میں کی گئی یہ بات کہ ایسٹیبلشمنٹ مجھ سے ڈری ہوئی محسوس ہوتی ہے کا تجزیہ کریں تو ان کی اس بات سے اتفاق ناگزیر ہو جاتا ہے کیونکہ جس طرح سے پچھلے 70 سالوں میں ایسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت کی متعدد بار اقتدار پر زبردستی طور پر قبضہ کیا اور پھر اپنے بچے جمہورے اس ملک پر مسلط کئے اور پھر ان کی آزادی کی خواہش کو جس بے دردی سے دبایا وہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں۔ عقوبت خانوں کی داستانیں اور سیاسی کارکنوں کو جس بے دردی سے سیاسی مقدمات کا اندراج کر کے پابند سلاسل کیا گیا وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ حتیٰ کہ ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایسے ہی ایک سیاسی مقدمے میں تختہء دار پر لٹکا دیا گیا۔ جبکہ دوسرے منتخب وزیراعظم نواز شریف کو پابند سلاسل کیا گیا اور بعد ازاں جلاوطن کر دیا گیا۔ لیکن ان تمام تر ناانصافیوں کے باوجود انہوں نے ان مقدمات کا نہ صرف بہادری سے مقابلہ کیا بلکہ وطن عزیز کی سلامتی کیلئے پھندے سے جھول گئے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ جلاوطنی کا درد بھی سہا۔ اب سے پہلے جتنے بھی سیاسی رہنما ایسٹیبلشمنٹ کی کشتی پر سوار ہو کر آئے اور بعد ازاں ان سے اختلافات کے بعد غدار کہلائے انہوں نے ایسٹیبلشمنٹ سے ٹکر کی بجائے سیاسی جدوجہد کو ترجیح دی اور عوام کو اپنی مظلومیت کی داستانیں تو ضرور سنائیں مگر اپنی مخالف سیاسی جماعت کو تختہء مشق بنایا اور ایسٹیبلشمنٹ کی تمام کارستانی اس پر ڈال دیں۔ ایک دوسرے کو چوک پر لٹکانے سے لے کر گلیوں میں گھسیٹنے تک کی باتیں کی گئیں۔ اسی طرح عوام کو ایک دوسرے اور ملک دشمن ظاہر کر کے ایک دوسرے کیلئے عوام میں نفرت بھر دی لیکن عوام کو حقیقت بیان کرنے سے گریزاں رہے۔ اس میں ان کی شاید یہ مصلحت ہو کہ اب اگر اقتدار گیا ہے تو پھر آ جائے گا مگر ایسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر لیا تو پھر اقتدار تو دور کی بات ملک میں رہنا ناممکن بن جائے گا۔ چونکہ ان کا طرز سیاست ہی سیاست کو گندا کرنا تھا اس لئے طالع آزما وقفے وقفے سے خود براہ راست اقتدار پر قابض ہوئے بلکہ جمہوری حکومتوں میں بھی تمام تر کلیدی فیصلے ان کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہ تھے۔

 

عمران خان کے دور حکومت کو بھی اگر دیکھا جائے تو تمام تر کلیدی فیصلوں کا اختیار انہی طاقتور لوگوں کے پاس ہی رہا اور عمران خان ان کے ان فیصلوں کی ذمہ داری کا بوجھ نہ صرف اپنے کندھوں پر اٹھاتے رہے بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہے۔ پھر جیسے ہی ملکی معیشت ڈوب گئی تو ایسٹیبلشمنٹ کو خیال آیا کہ تحریک انصاف حکومت کی تمام تر نااہلی اور بے ضابطگیوں کا بوجھ ان پر پڑ رہا ہے اور عوام میں ان کے خلاف ناپسندیدگی سے بڑھ کر نفرت نے جنم لینا شروع کر دیا ہے تو انہوں نے اپنے آپ کواچھا بچہ ظاہر کرنے کیلئے سیاست میں مداخلت سے برات کا اعلان کر دیا اور خان صاحب کی حکومت سے بظاہر ہاتھ کھینچ لیا اور یوں اپوزیشن کو عمران خان حکومت کو ختم کرنے کا موقع مل گیا۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ چیزیں منیج کرنے کی خواہش نے پی ڈی ایم کو ان کے دام صیاد میں پھنس جانے کا موقع فراہم کیا اور پھر پی ٹی آئی حکومت کے پیچھے کارفرما ہاتھوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چھکے پر چھکا لگانا شروع کر دیا اور جس تیزی سے عمران خان کی مقبولیت کا گراف گہرائیوں میں دفن ہونے کے قریب تھا وہ پھر سے اوپر آنا شروع ہو گیا۔

 

جیسے جیسے معیشت کو سنبھالنے کیلئے سخت فیصلے کئے گئے مہنگائی کا بوجھ عوام سے ناقابل برداشت ہونے لگا اور لوگ خان صاحب کی حکومت کے کارنامے بھول کر موجودہ حکومت پر چڑھائی کرنے لگے۔ کیونکہ مہنگائی خان صاحب کے دور ہی میں ناقابل برداشت ہو چکی تھی اور عوام کو یقین تھا کہ پی ڈی ایم کی حکومت انہیں کچھ ریلیف دے گی مگر معیشت چونکہ ڈوب چکی تھی اس لئے ریلیف دینا شاید حکومت کے بس کی بات ہرگز نہ تھی۔ یوں عمران خان حکومت کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر آن گرا۔

 

 اس سب کے پیچھے خان صاحب کے بہی خواہوں کی کوششیں تو شامل تھیں ہی موجودہ حکومت کی بداعمالیوں نے بھی خوب کردار ادا کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ معیشت کی دگرگوں حالت کے پیش نظر اس پر کم سے کم بوجھ ڈالا جاتا اور کابینہ کا سائز کم سے کم رکھنے کیلئے فوج ظفر موج بھرتی نہ کی جاتی۔ تمام غیرترقیاتی اخراجات کو نچلی سطح پر لایا جاتا۔ غریب عوام پر بوجھ کم ڈالنے کیلئے عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگانے کی بجائے خاص اشیاء اور امیروں پر ٹیکس لگایا جاتا لیکن ایسا نہ کیا گیا بلکہ وہی گھسا پٹا فارمولہ اپنایا گیا۔ یوں عوام نہ جینے کے قابل رہی اور نہ مرنے کے جبکہ اشرافیہ کی عیاشیاں ویسے ہی جاری رہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں، پلاٹ، بھاری تنخواہیں اور مراعات بڑھانے کا سلسلہ جوں کا توں جاری رہا۔ جب عوام نے دیکھا کہ ہر بار جب بھی قربانی دینے کا موقع آیا تو صرف غریب طبقہ ہی قربانی کا بکرا بنا یوں ان کی نفرت کا نشانہ حکومت وقت نے ہی بننا تھا یوں موجودہ حکومت اس نفرت کی حقدار ٹھہری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح محبت میں بڑی طاقت ہے اسی طرح نفرت بھی کبھی کمزور نہیں رہی۔ حکومت کے خلاف نفرت نے عمران خان کو مقبول لیڈر بنا دیا ہے۔

 

اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ عمران خان کے کہنے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ مجھ سے ڈری ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی اقتدار میں آنے سے پہلے ان کا ایک ویڈیو کلپ بہت وائرل ہوا تھا کہ ایسٹیبلشمنٹ کے خلاف دس پندرہ ہزار بندہ سڑکوں پہ نکل آئے تو ان کی پینٹ گیلی ہو جاتی ہے۔ ایسا عمران خان کیوں کہا کرتے تھے اور آج یہ بیان کیوں دے رہے ہیں اس کا صرف ایک ہی جواب بنتا ہے کہ ان کے جو سیاسی استاد ہیں وہ آج بھی انہیں سارے گر بتا رہے ہیں۔ چونکہ آج ان کی بڑی لرائی ایسٹیبلشمنٹ سے ہی ہو رہی ہے تو ان کے استاد انہیں اندر کی کمزوریوں سے بھی آگاہ کر رہے ہوں گے۔ اس لئے عمران خان ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ دبنے کی بجائے دباؤ تا کہ حاوی رہو۔ خان صاحب تو یہ بھی جانتے ہیں کہ قانون و انصاف کی حکمرانی تو ملک میں پہلے بھی نہیں تھی اس لئے قانون اور انصاف سے انہیں درانا ممکن نہیں وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔ سو وہ اسے اسی طرح سے پچھاڑ رہے ہیں۔ اب یہ دنگل زوروں پر ہے دیکھتے ہیں کس کا ڈندا زیادہ طاقتور ہے۔ اب بس کچھ ہی دنوں کا کھیل باقی ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

عوام نہیں صرف شاہی۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

پاکستان،قائداعظم کی میراث۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے