جہالت کا ننگا ناچ۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

جہالت کا ننگا ناچ۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

جہالت کا ننگا ناچ

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

"جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے" پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ جہاں بھی دو،چار لوگ اکٹھے ہو جائیں یا سیاست کا ذکر خیر ہو عمران خان کے ذکر کے بغیر محفل اختتام کو نہیں پہنچتی۔ واہ واہ کرنے والوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ اب جوان اور بڑی عمر کے لوگ بھی شامل ہیں۔ جو ہر بات میں خان صاحب کا ذکر شریف تلاش کر لیتے ہیں اور سب شرکاء محفل کو اس میں گھسیٹ لیتے ہیں خواہ ان کی سیاست یا اہل سیاست میں کوئی دلچسپی ہو یا نہ ہو، ان کی بات میں کوئی لاجک یا سچائی ہو یا نہ ہو وہ اپنی بات اور جذبات ہر کسی تک پہنچانے کیلئے کمربستہ ہوتے ہیں۔

 

ہر محفل میں یہ نوجوان اور عمران خان کے جاں نثار ایک بات ضرور کرتے ہیں کہ عمراں خان نے لوگوں کو شعور دیا ہے اپنا حق مانگنے کیلئے لوگوں کو آواز دی ہے۔ لیکن جس انداز سے خان صاحب اور یہ جاں نثار اس شعور کا استعمال کرتے ہیں بڑے بڑے بےشعور انسان بھی کانوں پر ہاتھ دھر لیتے ہیں۔ شعور اور بے شعوری میں ایک باریک سے لائن ہوتی ہے جو اگر لاشعوری میں بھی عبور ہو جائے تو شعور کی ماں بہن ایک ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ ہمارے بھائی اور بہنیں ایسا سمجھنے کو قطعی طور تیار نہیں ہوتے اور اپنی بات پر ڈٹے رہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اپنی غلط بات پر ڈٹ جانا بھی بے شعوری کی ہی ایک مثل ہے جسے اہل شعور ہمیشہ سے سمجھاتے آئے ہیں۔

 

پاکستانی قوم کے بارے میں یہ بات ہمیشہ سے ہی مشہور ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں یہ بات صادق آتی ہے کہ اس کی میموری بہت شارٹ ہے۔ یہ کچھ ہی دیر قبل کی بات بہت آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ وہ صرف وہی بات یاد رکھتے ہیں لمحہء موجود میں ہو رہی ہو اس کیلئے وہ یہ بھی نہیں دیکھتے یہ بات کرنے والا کچھ دیر پہلے اسی حوالے سے بالکل الٹ بات کر رہا تھا۔ مگر ہم واہ واہ کے ڈنگورے برسائے ہی جاتے ہیں۔ اب میں آپ کو ایک باریک بات بتاؤں کہ یہ شارٹ میموری بھی جہالت کی ایک قسم ہے جو پاکستان میں شروع سے ہی ننگا ناچ ناچتی آ رہی ہے اور ہم بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے آ رہے ہیں۔ کٹھ پتلیاں بدلتی ہیں مگر انہیں نچانے والے کبھی نہیں بدلے "نیا جال لے کر آئے پرانے شکاری" کے مصداق وہ "شکاری" لوگوں کو پھنسانے کیلئے جال یعنی چہرہ بدل دیتے ہیں۔ کبھی وہ نواز شریف کی شکل میں ہوتا ہے، کبھی شجاعت یا پرویز الٰہی اور کبھی عمران خان کی شکل میں، مگر کبھی آپ نے عام آدمی کے حالات بدلتے دیکھے ہیں؟

 

اس وقت ارض وطن پر ایک اور منظرنامہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ پلان بنائے جا رہے ہیں بلکہ ان پلانز پر عمل در آمد کیلئے کھیل جاری ہے۔ کچھ ہی دنوں میں منظرتبدیل ہو گا اور ڈرامے کے کردار بدل دیئے جائیں گے۔ مگر ڈرامہ وہی ہو گا اس کا اختتام بھی وہی ہو گا جو رائٹر لکھ چکا ہے صرف ڈرامے کو دلچسپ بنانے کیلئے سنسنی خیزی ڈالی جارہی ہے۔

 

ادھر ہم عوام ہیں کہ اپنی جہالت کے عروج پر ہیں۔ ہماری جہالت ننگا ناچ رہی ہے۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہمارے مخالف اداروں میں بیٹھے کچھ لوگ تو ہو سکتے ہیں مگر ملک کی املاک، گاڑیاں، عمارات وغیرہ تو ہمارے مخالف نہیں لیکن ہم نفرت کی اس انتہا پر ہیں کہ ہمیں یہ بھی نہیں نظر آتا کہ جو ہم ملک کا نقصان کر رہے ہیں وہ دراصل ہمارا ہی نقصان ہے اگر یہ املاک جل گئیں ، ٹوٹ پھوٹ گئیں تو انہیں دوبارہ بنانے اور خریدنے کیلئے ہماری رگوں سے نچوڑا گیا خون ہی استعمال ہو گا۔

 

آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ خدارا اچھے اور برے میں تمیز کرنا شروع کر دیں، ملکی املاک کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان ہاتھوں کا احتساب کریں جنہیں آپ اس تمام برائی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یوں کسی کی باتوں میں آ کر کسی کو چور تو کسی کو صادق و آمین قرار نہ دیں اور اس کیلئے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مت ماریں۔ ہوش کریں ہوش، ہو گا وہی جو ڈرامے کے سکرپٹ میں لکھا جا چکا ہے، آپ صرف مہرے ہیں۔ آپ ڈرامے کا وہ کردار ہیں جسے ایکسٹرا کہا جاتا ہے اور کسی بھی ایکشن سین کے بعد آنے والے سین میں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے اتنے ساتھی مارے گئے یا اتنے شرپسند مارے گئے اور بس۔ پھر منظر تبدیل ہوتا ہے اور اس منظر میں ایک الگ ہی دنیا ہوتی ہے جس میں ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہوتا، ہوتا وہی ہے جو سکرپٹ میں لکھا جا چکا ہوتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

کیا ایسٹیبلشمنٹ واقعی عمران خان سے ڈری ہوئی ہے؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

عوام نہیں صرف شاہی۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے