عمران خان کا لاہور شو۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر فیض محمد خان بلوچ

عمران خان کا لاہور شو۔۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر فیض محمد خان بلوچ

 

عمران خان کا لاہور شو۔۔۔۔

تحریر: ڈاکٹر فیض محمد خان بلوچ حال مقیم ریتڑہ

 

رمضان کی مبارک ساعتوں میں پوری توجہ سے عمران خان کا لاہور جلسہ عام سے خطاب سنا۔  پہلی بات کہ میں پوری غیر جانبداری سے اس کا تجزیہ کروں گا کیونکہ اس مشکل وقت میں ہمیں مشکلات سے نکلنے کی راہیں تلاش کرنی ہیں۔ اسی جذبے سے گھنٹے لمبا خطاب سنا۔ دوسری بات کہ اس خطاب میں کچھ نیا نہیں تھا سوائے مرغیوں، بکریوں، دس لاکھ گھروں اور کروڑوں ملازمتوں کا ذکر نہیں تھا۔ ان کے پاس خیبرپختونخواہ میں دس سال اور پاکستان پر ساڑھے تین سال حکومت کرنے کے بعد ہیلتھ کارڈ کے علاؤہ پیش کرنے کا کچھ نہیں تھا۔

 

انہوں نے درست تجزیہ کیا کہ انصاف کی حکمرانی قائم کیے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی کارکردگی نہیں تھی جو وہ بیان کرسکتے۔ باقی پوری تقریر دو عنوانات پر محیط تھی کہ موجودہ حکمران اور اسٹبلشمنٹ عمران کو اقتدار میں آنے سے روک رہی ہیں اور دوسرے وہ شیخ چلی کے خواب جو پچیس سالوں سے وہ قوم کو دکھا رہے ہیں۔

وہ نہ فوری انتخابات پر اصرار کرسکے اور نہ ملک کو بدحالی سے نکالنے کے لیے کوئی قابل عمل حل پیش کرسکے۔ وہی روائتی باتیں تھیں جو سن، سن کر تھک گئے ہیں۔ انہیں کارکردگی دکھانے کا خاصا موقع ملا تھا، جو بیوروکریسی کے اکھاڑ پچھاڑ، آٹا، چینی، اور ادویات بحران، پشاور ٹرانزٹ ٹرین، بلین ٹری سکینڈل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ خان صاحب نے وزیراعظم کا حلف لیتے ہوئے اس سے خوبصورت باتیں کی تھیں، جس سے مجھے بڑی امید بنی تھی کہ شاید ملک سدھر جائے لیکن ان میں سے کسی ایک بات پر عمل نہیں کرپائے تھے۔ 

 

عمران خان کو دوران حکومت اسٹبلشمنٹ، عدلیہ اور اپوزیشن کی طرف سے جو سازگار ماحول میسر رہا وہ ماضی میں کسی حکمران کو میسر نہیں تھا۔  میرے خیال میں پورے خلوص کے باوجود عمران خان کو اس کی توہم پرستی ( بشری بی بی کے اشاروں)، خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے کسی سے مشورہ نہ کرنا اور جنوں میں فیصلے کرنا، ٹیم بلڈنگ میں ناکامی، اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے اور فیصلہ سازی اور فیصلوں پر عمل درآمد کا میکانزم نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ناتجربہ کار کابینہ اور صوبائی وزراء اعلیٰ مقرر کرکے سارا اپنا پلان تباہ کیا۔

 

ان کی خود سری اور پارٹی عہدیداروں سے عدم مشاورت کے سبب دوران حکومت کوئی ان کے ساتھ نہیں تھا، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ان کے کسی اچھے سے اچھے فیصلے کی تائید میں کسی پارٹی عہدیدار اور رکن کابینہ نے کبھی اخباری بیان تک نہیں دیا۔ جو ٹیم محض زبانی بیان تک دینے پر تیار نہ ہو، وہ قائد کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیسے کروائے گی۔ یہی ان کی ناکامی کی بنیادی وجہ رہی ہے۔ پارٹی عہدیداروں کے بجائے بیرون ملک سے مشیروں کی فوج بھرتی کرنا، وزراء اور وزراء اعلیٰ کے بجائے منظور نظر بیوروکریٹس کے ذریعے حکومت چلانے جیسے اقدامات نے عمران خان کو سیاسی طور پر اتنا دیوالیہ کردیا کہ اس کے پاس اپنے کارکردگی بیان کرنے کے لیے ایک کارنامہ بھی میسر نہیں۔

 

جس قانون کی حکمرانی کا وہ رونا رو، رہے ہیں اس معاملے میں ان کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ غلامی، غلامی کے نعرے لگانے کے باوجود وہ ملک سے نہ انگریزی زبان کا تسلط ختم کرسکے اور نہ قومی زبان کو سرکاری زبان بنا سکے۔ لمبی لمبی تقریریں کرنے کے باوجود مسٹر چپس کے بجائے سیرت النبی کو نصاب میں شامل نہ کرسکے۔ یکساں نصاب کے نام پر ان کے وزیر تعلیم نے ایسا مرغوبہ متعارف کروایا کہ جس سے قومی زبان نصاب سے فارغ ہوکر انگریزی کا مستقل تسلط قائم ہوا۔ماضی میں انہوں نے انصاف ٹائیگر فورس قائم کی، جسے خود پارٹی میں پذیرائی حاصل نہ ہوسکی اور نہ وہ منصوبہ کوئی نتیجہ دے سکا۔ مرغیاں پالنے کا شور شرابہ ہوا لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے لوکاسٹ ہاؤسنگ منصوبے کی ساری رقم بڑے بلڈر ہضم کرگئے اور کسی غریب کو چھت نہ مل سکی۔ نہ بلین ٹری منصوبہ دس سالوں میں پروان چڑھ سکا نہ نوکریاں دی جاسکیں۔ اب ان کے پاس کون سا آلہ دین کا چراغ ہے جو ملک کو مسائل سے نکال سکتا ہے؟

 

انہوں نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، درآمدات میں اضافہ کرنے، ریڑیاں لگانے اور بیرون ملک پاکستانیوں سے سرمایہ کاری کروانے کی بات کی ہے، جس پر وہ دوران حکومت کوئی پیش رفت نہیں دکھا سکے تھے۔ سوائے جی۔الیون مرکز میں پچاس ریڑیاں لگوانے کے۔

 

 ناقص ترین حکمرانی کے باوجود عوام میں عمران خان کی پزیرائی ابھی موجود ہے۔ آج بھی اگر وہ توہم پرستی، خودسری اور معاملہ فہمی سے کام لیں، اپنے قریبی حلقے میں چاپلوسوں کے بجائے ماہرین کو جگہ دیں اور ان کی ماہرانہ تجاویز کو قبول کریں تو شاید کوئی کارکردگی دکھا سکیں۔ ان کی شخصیت میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ کچھ نقائص ناقابل اصلاح ہیں جس کی بناء پر وہ آگے بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے۔ وہ اپنی ساری ناکامیوں کو باجوہ پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ یہ اعتراف نہیں کر پارہے کہ انہیں باجوہ ہی لائے تھے اور انہیں وہ مکمل سپورٹ دیتے رہے لیکن جب منصوبہ ناکام ہونے پر وہ انہیں بچا نہیں سکے۔

 

میری نظر میں عمران خان امید کی کرن تھے، جن سے بہت سارے اختلاف کے باوجود  بہتری کی امید تھی، وہ نوازشریف ، زرداری اور ان کے ٹولے جیسے کرپٹ نہیں تھے لیکن توشہ خانہ انکشاف نے انہیں بھی لینے والا ثابت کیا قوم کو دینے والا نہیں۔۔۔ توشہ خانہ کی گھڑی اگر ان کی کلائی پر سجی رہتی تو اتنا دکھ نہ ہوتا جتنا  پیرنی کے ذریعے انونے پونے بیچ کر اپنی اور ملک و قوم کی جگ ہنسائی کروائی ہے۔ اس کے باوجود پیرنی آج بھی ان کی مشیر خاص ہے۔ 

 

مجھے نہیں لگتا کہ اب عمران خان کا سیاست میں کوئی مستقبل ہے سوائے رونے دھونے کے۔۔حیران کن طور پر انہوں نے امریکہ بہادر کی سائفر سازش، پی ڈی ایم ٹولے سے لوٹی ہوئی دولت واپس لینے اور اسٹبلشمنٹ سے دوبار مدد مانگنے کا ذکر نہیں کیا۔

 

اپنے پی ٹی آئی کے دوستوں سے معذرت کے ساتھ گزارشات پیش کررہا ہوں۔ اگر وہ دلائل سے کچھ کہنا چاہیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔

 

اب سوال یہ ہے کہ ملک کو خطرات سے کیسے نکالا جائے۔ 

تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ اقتدار اور موجودہ کثیر الجماعتی حکومت کی مکمل ناکامی کے بعد قوم کے سامنے جماعت اسلامی ہی واحد قابل اعتبار متبادل ہے جس کی قیادت ہی نہیں عام ارکان تک کا دامن الحمدللہ کرپشن سے بالعموم پاک ہے ، جس کی قیادت مکمل طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور عوام کی صفوں سے تعلق رکھتی ہے ، جس نے بیرون ملک جائیدادیں نہیں بنا رکھی ہیں ، جس کے کارکن ہر مشکل وقت میں عوام کے بے لوث خدمت پر کمربستہ نظر آتے ہیں ۔ جو اسلام اور جمہوریت کو نعرے کے طور پر استعمال نہیں کرتی بلکہ ان کے اصولوں کی پوری طرح پابند ہے، جماعت کا حال ہی میں سامنے آنے والا انتخابی منشور ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کا قابل عمل حل پیش کرتا ہے ۔ لہذا  ملک کی قسمت سنوارنی ہے تو عوام کو آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی کو اپنی بھرپور حمایت سے نوازنا ہوگا بصورت دیگر  مکمل تباہی یقینی دکھائی دیتی ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

چشمہ رائٹ بنک کینال کی عدم بحالی، جماعت اسلامی کا احتجاج

کیا ایسٹیبلشمنٹ واقعی عمرانخان سے ڈری ہوئی ہے؟ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے